پٹرول کی قیمت میں 10 روپے فی لٹر، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 13.06 روپے فی لٹر، مٹی کے تیل کی قیمت میں 11 روپے 15 پیسے اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 12.12 روپے فی لٹر کی کمی کی گئی ہے، جو کہ 16 سے 30 ستمبر کے لیے نافذ ہے۔ یہ ایک نمایاں کمی ہے اور ان تمام افراد کی دستیاب آمدنی پر بڑا اثر ڈالے گی جو اپنی ٹرانسپورٹ، جیسے کاریں اور موٹر سائیکلیں، استعمال کرتے ہیں۔
تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ قیمتوں میں واضح کمی کے نتیجے میں سرکاری یا نجی ٹرانسپورٹرز اپنے کرایوں میں کتنی کمی کریں گے، کیونکہ تاریخی طور پر، ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں مسلسل گراوٹ دیکھی گئی ہے،حالانکہ حکومت کی جانب سے پٹرولم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان ہوتے ہی کرایوں میں فوری اضافہ ہوتا ہے۔اس کے نتیجے میں اس بات کا تعین ہوگا کہ فارم سے مارکیٹ تک نقل و حمل کے ایک جزو کے ساتھ خراب ہونے والی اشیاء کی قیمت کتنی متاثر ہوگی۔
پٹرولیم لیوی تکنیکی طور پر ایک سیلز ٹیکس ہے، ایک بالواسطہ ٹیکس جس کا اثر امیروں کے مقابلے میں غریبوں پر زیادہ پڑتا ہے، مگر اسے جان بوجھ کر نان ٹیکس ریونیو کی مد میں رکھا جاتا ہے تاکہ اس کے حاصل کردہ وسائل صوبوں کے ساتھ بانٹے نہ جائیں، کیونکہ سیلز ٹیکس تقسیم کے مجموعے کا ایک حصہ ہے۔
رواں سال پٹرولیم لیوی کا بجٹ کل سیلز ٹیکس کا 25 فیصد ہے جو کسی بھی سال فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی وصولیوں کا سب سے بڑا واحد ذریعہ اور مجموعی نان ٹیکس ریونیو کا 26 فیصد ہے۔ واضح رہے کہ پٹرول پر لیوی 60 روپے فی لٹر برقرار رکھی گئی ہے اور اسے 70 روپے فی لٹر (فنانس بل 2025 کے حصے کے طور پر بنایا گیا تھا) تک نہیں بڑھایا گیا ہے تاکہ رواں سال جولائی تا اگست ایف بی آر کے 98 ارب روپے کے شارٹ فال کو پورا کیا جا سکے۔صنعتی ماہرین نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ یہ ایک جائز تشویش ہے کہ لیوی میں مزید اضافہ کھپت کو مزید کم کرے گا جس کے نتیجے میں آمدنی کی وصولی پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔
کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) رواں سال فروری میں 23.1 فیصد کی بلند ترین سطح سے اگست میں گھٹ کر 9.6 فیصد رہ گیا جبکہ 12 ستمبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے لیے حساس قیمت انڈیکس (ایس پی آئی) گزشتہ سال کے اسی ہفتے کے مقابلے میں 14.36 فیصد کم رہا اور 5 ستمبر 2024 کو ختم ہونے والے ہفتے سے صرف 0.01 فیصد کم تھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ کمی عام عوام میں خوشی کا احساس پیدا کرے گی؟ اور کیا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ کمی لیوی کی وصولیوں میں اضافہ کرے گی؟
رواں سال کے بجٹ میں اس غیر منصفانہ اور ناانصافی کے تحت لگائے جانے والے بالواسطہ ٹیکس کے لیے 1.26 کھرب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس کا اثر غریبوں پر امیروں کی نسبت زیادہ پڑتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ممکنہ طور پر کھپت بڑھانے کا مقصد حاصل نہیں ہوگا، کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں مسلسل کمی تین عوامل کی وجہ سے ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ نجی شعبے میں تنخواہیں جمود کا شکار ہیں (جو ملک میں کام کرنے والے تمام افراد کا 93 فیصد ہے) جس کا مطلب یہ ہے کہ مہنگائی ہر مہینے اور ہفتے میں دستیاب آمدنی کو کم کررہی ہے، بھلے ہی حکومت کی جانب سے جاری کردہ افراط زر کے اعداد و شمار میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہو۔
دوسرا یہ کہ تنخواہ دار افراد کی آمدنی پر ٹیکسز میں اضافے سے ٹیک ہوم تنخواہ میں مزید کمی آئے گی۔
آخر میں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی شرائط کے تحت تمام یوٹیلٹی خدمات کی مکمل لاگت وصولی کو یقینی بنانے کے لیے کیے گئے انتظامی فیصلوں کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جس نے کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے مزید اخراجات میں کمی کرنا مشکل بنا دیا ہے۔
حساس قیمتوں کے انڈیکس (ایس پی آئی) کے مطابق 12 ستمبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران بجلی کی قیمتوں میں 4.13 فیصد اضافہ ہوا اور جس کی وجہ سے دستیاب آمدنی مزید کم ہوگئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایف بی آر کے ریونیو شارٹ فال کو زیادہ ٹیکسز کے ذریعے پورا کرنا ہوگا اور چونکہ حکومت کی توجہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر ٹیکس بڑھانے پر مرکوز ہے نہ کہ نئے ٹیکس دہندگان کو شامل کرنے پر، اس سے خوشحالی کا احساس مزید متاثر ہوگا۔
اس کا حل غیر منصفانہ ٹیکسز پر انحصار بڑھانے کے بجائے موجودہ اخراجات کو کم کرنے میں مضمر ہے، کیونکہ عام عوام کے پاس یوٹیلیٹی ریٹس میں اضافے یا بالواسطہ ٹیکسوں کے مزید بوجھ کو برداشت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے (جیسا کہ 12 ستمبر کی مانیٹری پالیسی بیان میں ان فیصلوں میں تاخیر کا ذکر کیا گیا تھا)۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments