ادارہ برائے شماریات پاکستان (پی بی ایس) نے گزشتہ جمعہ کو دو مثبت میکرو اکنامک اشاریے جاری کیے جن میں برآمدات میں اضافہ اور لارج اسکیل مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) سیکٹر شامل ہیں۔

ماہرین معاشیات بلا شبہ تجارتی اعداد و شمار کے تین پہلوؤں پر توجہ مرکوز کریں گے: (i) موضوع کا عنوان ”اگست 2024 کے مہینے کیلئے بیرونی تجارت کے اعداد و شمار کی پیشگی ریلیز“ تھا، جس کا مطلب کہ یہ عبوری ڈیٹا ہے، اور پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس (پی بی ایس) نے اپنی رپورٹ میں اس کی وضاحت کی ہے۔ شاید یہ فیصلہ معیشت کی کارکردگی کے حوالے سے ایک مثبت تاثر پیدا کرنے کیلئے کیا گیا ہو۔

اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک جو تجارتی اعدادوشمار بھی اپ لوڈ کرتا ہے، نے اس سال جولائی کے بعد سے اپنی ویب سائٹ کو اپ ڈیٹ نہیں کیا ہے۔(ii) فارمیٹ پچھلے مہینوں سے مختلف ہے جس میں برآمدات اور درآمدات کو ایک ٹیبل میں آسان موازنہ کے لئے فراہم نہیں کیا گیا ۔ چاہے جیسا بھی ہو، جولائی تا اگست 2024ء مجموعی عارضی برآمدات کا تخمینہ 5.069 ارب ڈالر لگایا گیا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 4.430 ارب ڈالر تھا (گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال 14.42 فیصد اضافہ ہوا)، جبکہ درآمدات گزشتہ سال کے اسی عرصے کے 8.165 ارب ڈالر کے مقابلے میں اس سال بڑھ کر 8.750 ارب ڈالر ہوگئیں۔ دوسرے لفظوں میں تجارتی خسارہ گزشتہ سال جولائی تا اگست 3.735 ارب ڈالر سے بڑھ کر اس سال 4.32 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو تقریبا 16 فیصد اضافہ ہے۔ یہ خسارہ مزدوروں کی ترسیلات زر کی آمد سے پورا کرنا ہوگا(جس کا تخمینہ جولائی-اگست 2024 میں 5936.8 ملین ڈالر ہے)؛تاہم رواں مالی سال بڑے پیمانے پر بیرونی ادائیگیوں کے پیش نظر حکومت کا بیرونی قرضوں پر انحصار زیادہ رہے گا۔ اور(iii) کموڈٹی برآمدات کے تفصیلی جدول میں جولائی اوراگست کے اعداد و شمار کو یکجا نہیں کیا گیا اور اس سال اگست کا موازنہ پچھلے سال اگست سے کیا گیا ہے اور جولائی 2023 کے اعداد و شمار فراہم نہیں کیے گئے۔

تاہم، اگست 2024 میں چاول کی برآمدات (باسمتی) کی مقدار میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا – جولائی 2024 کے مقابلے میں 28.5 فیصد زیادہ اور اگست 2023 کے مقابلے میں 106 فیصد زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ تاہم، اب یہ برقرار رہنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ بھارت نے چاول کی برآمد کے سلسلے میں اپنی حکمت عملی کو تبدیل کردیا ہے۔ ابتدائی طور پر گزشتہ سال جولائی میں پابندی عائد کی گئی تھی لیکن اب طے شدہ شرائط کے تحت مختلف ممالک کو برآمدات کا آغاز کردیا گیا ہے۔

ٹیکسٹائل کی برآمدات میں اضافہ ظاہر کیا گیا ہے؛ تاہم، مقدار میں اضافہ نٹ ویئر، بیڈ ویئر اور تولیوں میں ہوا، جبکہ کاٹن یارن میں بڑی کمی دیکھنے میں آئی۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی مقدار میں بھی کمی واقع ہوئی ہے – اگست 2023 میں 994,210 میٹرک ٹن سے گھٹ کر جولائی 2024 میں 825,661 میٹرک ٹن اور اگست 2024 میں صرف 609,382 میٹرک ٹن رہ گئی۔ یعنی عوام اپنے ایندھن کے استعمال میں مسلسل کمی کررہے ہیں، حالانکہ پاکستان بیورو آف شماریات (پی ابی ایس) کی جاری کردہ کم افراط زر کے ڈیٹا کے باوجود ملازمت پیشہ طبقے کی آمدن میں کمی کے باعث، جو براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسز میں اضافے کی وجہ سے ہو رہی ہے، ایندھن کی خریداری میں کمی آ رہی ہے۔

جولائی 2024 میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم ) میں جون 2024 کے مقابلے میں منفی 2.08 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی، جب کہ سالانہ بنیاد پر اس کی ترقی 2.38 فیصد درج کی گئی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 12 ستمبر 2024 کی مانیٹری پالیسی بیان میں جو مینوفیکچرنگ کے حوالے سے بہتری کی پیشگوئی کی گئی تھی اور جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ”حالیہ بزنس سینٹیمنٹ سرویز بھی اس اعتدال پسند بہتری کے جائزے کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ مینوفیکچرنگ کمپنیوں نے پچھلی چند لہروں کے دوران زیادہ صلاحیت کے استعمال کی اطلاع دی ہے“، وہ مکمل طور پر حقیقت میں تبدیل نہیں ہو پایا ہے۔

اور نہ ہی فنانس ڈویژن کی طرف سے جاری کردہ اگست اپڈیٹ اور آؤٹ لک میں کیا گیا یہ دعویٰ حقیقت میں بدل سکا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ ”ایل ایس ایم سیکٹر مالی سال 25 میں مثبت ترقی کی رفتار کو برقرار رکھے گا — بہتر بیرونی طلب، مستحکم ایکسچینج ریٹ، کم ہوتی ہوئی افراط زر اور مالیاتی پالیسی میں نرمی کے باعث۔“

اگرچہ مثبت جذبات کو پیش کرنے میں حکومت کے مقصد کو سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ تمام جذبات مارکیٹوں کو متحرک کرتے ہیں لیکن یہ مسئلہ بامعنی اصلاحات کے نفاذ میں تاخیر کا ایک مسئلہ بن گیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ حکومت 7 ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی (ای ایف ایف) کے حوالے سے آئی ایم ایف بورڈ کے طے شدہ اجلاس کی تاریخ کو ایک بڑی کامیابی تصور کر رہی ہے، جس پر اسٹاف سطح پر معاہدہ دو ماہ پہلے 12 جولائی کو ہوا تھا۔ تاہم، عوامی سطح پر اس پر اتنا مثبت ردعمل نہیں ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں۔پاکستان میں غربت کی بلند شرح (عالمی بینک کے مطابق گزشتہ سال 41 فیصد)، نجی شعبے میں تنخواہوں کا جمود، اگرچہ سرکاری ملازمین کو ٹیکس دہندگان کی قیمت پر بھاری تنخواہ میں اضافہ ملا، اور اس کے ساتھ ہی رواں سال کے لیے زیادہ انکم ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ ان عوامل نے خاص طور پر متوسط طبقے کی زندگی کا معیار برقرار رکھنے کی صلاحیت کو کمزور کردیا ہے۔

اس اخبار نے بارہا اشرافیہ پر زور دیا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنے بجٹ اخراجات میں کمی کریں، لیکن اب تک اس طرح کے اقدام کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا ہے۔

کفایت شعاری کے اقدامات اور سرکاری اداروں کی بڑے پیمانے پر نجکاری کی بات کی جاتی ہے لیکن ایک بار پھر یہ متعلقہ محکموں / وزارتوں کی طرف سے کابینہ کی منظوری اور وعدوں کے حوالے ہے، جو پچھلے ڈیڑھ دہائی سے سامنے آ رہے ہیں۔

حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کے پاس سیاسی طور پر ناپسندیدہ فیصلوں کو مؤخر کرنے کا مزید کوئی موقع نہیں ہے، خاص طور پر اس بات کے پیش نظر کہ عوام کا مزاج تقریباً پھٹنے کے قریب ہے— وہ لمحہ جب غصہ تشدد کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف