آخرکار، آئی ایم ایف (بین الاقوامی مالیاتی فنڈ) ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے پروگرام کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرلیا ہے۔ یہ بلاشبہ خوش آئند خبر ہے، لیکن بدقسمتی سے اس کے ساتھ مزید ٹیکسز کا بوجھ بھی منسلک ہے، کیونکہ ایف بی آر (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) متوقع ٹیکس محصولات جمع کرنے میں ناکام رہا ہے۔

پہلی سہ ماہی کے دوران ایف بی آر کے ٹیکس محصولات کا ہدف تقریباً 200 ارب روپے کی کمی کا شکار ہوجائیگا۔ رواں مالی سال کے ابتدائی دو مہینوں (جولائی ،اگست) کے اعداد وشمار بھی اسی جانب اشارہ کررہے ہیں، اور ہنگامی اقدامات (جو ابھی جاری ہونے والے ایم ای ایف پی میں طے کیے گئے ہیں) جلد کرنے پڑسکتے ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ ایک منی بجٹ متوقع ہے، اور ممکنہ طور پر اسے آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے کیس کی آئی ایم ایف بورڈ میں پیشی سے پہلے نافذ، پیش یا اس پر اتفاق کیا جائے گا، جو کہ ستمبر کے آخری ہفتے میں متوقع ہے۔

رواں مالی سال 2025 کے بجٹ نے سخت ٹیکس اقدامات کے باعث تقریباً تمام معاشی شعبوں پر بھاری بوجھ ڈال دیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے۔

کارپوریٹ سپر ٹیکس بدستور جاری ہے۔ برآمد کنندگان کو معمول کے ٹیکس نظام میں شامل کردیا گیا ہے، اور متعدد سیلز ٹیکس چھوٹ، بشمول حساس اشیاء جیسے بچوں کا دودھ، خوراک اور اسٹیشنری آئٹمز کی چھوٹ کو ختم کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، تین ماہ کے اندر مزید ٹیکس عائد کیے جانے کا امکان ہے، جس سے کاروباری اداروں اور صارفین کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت کو افراط زر میں کمی اور بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں بالخصوص تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے سانس لینے کا موقع مل گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے پالیسی ریٹ میں مزید 2 فیصد کمی کرکے 17.5 فیصد مقرر کردی ہے جس کا مقصد قرضوں کے اخراجات کو کم کرنا ہے۔ یہ عوامل حکومت کو محصولات کی کمی کی وجہ سے مالی خسارے کو قابو میں رکھنے کے لیے کچھ گنجائش فراہم کر رہے ہیں۔

ایک ممکنہ آپشن یہ ہے کہ بین الاقوامی تیل کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ہی پٹرولیم لیوی میں اضافہ کیا جائے تاکہ صارفین کی قیمتیں بڑھائے بغیر اضافی ریونیو حاصل کیا جا سکے۔ حکومت کو یہ قدم پہلے ہی اٹھا لینا چاہیے تھا، لیکن ملک میں جاری غیر یقینی سیاسی صورتحال اس میں رکاوٹ ہے۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ حکومت کے پاس اس صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے آپشنز کم ہوتے جائیں گے۔

مسئلہ یہ ہے کہ یہ اقدام اکیلا کافی نہیں ہوگا۔ حکومت کو مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہاں ہنگامی حالات سامنے آنے والے ہیں، جن میں سے مختلف شعبوں میں ودہولڈنگ ٹیکس (ڈبلیو ایچ ٹی) کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ودہولڈنگ ٹیکس کا نظام بالواسطہ نوعیت کا ہوتا ہے، اور بعض اوقات ٹیکس وصولی اصل ٹیکس واجبات سے زیادہ ہوتی ہے؛ ایسے حالات میں ریفنڈز حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے، جس سے مؤثر ٹیکس کی شرح مزید بڑھ جاتی ہے۔

ودہولڈنگ ٹیکس (ڈبلیو ایچ ٹی) مہنگائی بڑھانے والا ٹیکس ہے اور زیادہ تر معاملات میں یہ صارفین پر منتقل کردیا جاتا ہے۔ یہ ایک رجعت پسندانہ (regressive) ٹیکس ہے جو کاروبار کی لاگت میں اضافہ کرتا ہے۔ یہی صورتِ حال سیلز ٹیکس میں بھی ہوتی ہے، جہاں سروس یا سامان حاصل کرنے والے کو سپلائر کے وصول کردہ سیلز ٹیکس کی 20 فیصد کٹوتی کرنی پڑتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ سپلائر وصول کردہ سیلز ٹیکس کو اپنی جیب میں نہیں ڈال رہا، بلکہ اسے خزانے میں جمع کروارہا ہے۔ یہ اضافی مراحل کاروبار کی لاگت میں اضافہ کررہے ہیں اور اس کی وجہ ایف بی آر کی براہِ راست ٹیکس جمع کرنے میں ناکامی ہے۔

کچھ اشیاء جیسے ٹریکٹرز پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ یا کم شرح کو ختم کیا جانا ہے۔ کسان پہلے ہی امدادی قیمتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے خوش نہیں ہے ، اور اس اقدام سے اس کے لئے لاگت میں مزید اضافہ ہوگا جہاں رواں مالی سال ترقی کی شرح کم رہنے کا امکان ہے۔

کوئی شک نہیں کہ ایف بی آر آمدنی پر واجب الادا ٹیکس جمع کرنے میں ناکام رہا ہے، اور اس نے ودہولڈنگ ٹیکس کے ذریعے لین دین پر ٹیکس لگانے کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس نے آمدنی پر براہ راست ٹیکس کی نوعیت کو تبدیل کر کے اسے سیلز ٹیکس میں بدل دیا ہے، جو ایک بالواسطہ ٹیکس ہے، اور اس عمل میں پورے ٹیکس کے ڈھانچے کو بگاڑ دیا ہے۔

اس نے نہ صرف کاروبار کرنے کی لاگت میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے بلکہ قیمتوں میں اضافے میں بھی کردار ادا کیا ہے اور معیشت کے اندر بگاڑ پیدا کیا ہے ، جس سے ٹیکس لیکج کے لئے گنجائش پیدا ہوئی ہے۔

بدقسمتی سے، تمام کوششیں ٹیکس بوجھ بڑھانے پر مرکوز ہیں، جو پہلے سے ہی ٹیکس نیٹ میں شامل شعبوں پر زیادہ بوجھ ڈال رہی ہیں، اور وہ بھی بالواسطہ طریقے سے جو غریبوں پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ تاہم، اخراجات کو کم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی، حالانکہ یہاں کمی کرنے کی کافی گنجائش موجود ہے۔

حکومت یا ریاست کی طرف سے اپنے اخراجات میں کمی کرنے کی خواہش موجود ہی نہیں ہے۔ بغیر اس کے، مالیاتی استحکام اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی توقعات محض ایک خواب ہی رہیں گی۔ اس دوران، نئے ٹیکس لگتے رہیں گے، لیکن ان کے اثرات محدود ہونگے اور یہ ماہانہ، سہ ماہی، اور سالانہ وصولی کے اہداف کو پورا کرنے میں ناکام ہوں گے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف