اعلیٰ عدلیہ کے آئینی پیکج کے حوالے سے غیر یقینی کی فضا اتوار کو بھی برقرار رہی، کیونکہ حکومت متعلقہ بل پیش کرنے میں ناکام رہی اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے متعلقہ اجلاس کو بار بار ری شیڈول کرتی رہی — بالآخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ آج (پیر) قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس بلائے جائیں گے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اتوار کو صبح 11:30 بجے اور سینیٹ اجلاس شام 4 بجے آئینی ترمیم پر غور کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ تاہم، حکومت اور جمعیت علمائے اسلام ف (جے یو آئی-ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے درمیان مذاکرات کے بعد دونوں اجلاسوں کا وقت تبدیل کردیا گیا؛ سینیٹ کا اجلاس شام 7 بجے اور قومی اسمبلی کا اجلاس رات 8 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق حکومت کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں آئینی ترمیم منظور کروانے کیلئے مطلوبہ تعداد میں اراکین کی حمایت حاصل نہیں تھی، اور وہ بیرون ملک سے واپس آنے والے بعض اراکین کا انتظار کر رہی تھی تاکہ پارلیمنٹ میں مطلوبہ دو تہائی اکثریت پوری کی جا سکے ۔ اسی دوران اجلاسوں کا وقت دوبارہ رات 10 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
سیاسی رہنماؤں کے درمیان ملاقاتیں دن بھر سرخیوں میں رہیں۔ اطلاعات کے مطابق صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر نواز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنماؤں نے جے یو آئی-ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی-ایم) کے سربراہ اختر مینگل سے رابطہ کیا، تاکہ جے یو آئی-ف اور بی این پی-ایم کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں کی جا سکیں۔
رپورٹس میں یہ بھی سامنے آیا کہ جے یو آئی-ف اور بی این پی-ایم نے عدالتی پیکج کی بعض شقوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں حکومت کی حمایت سے انکار کر دیا، جس کے بعد اجلاسوں کو پیر تک ملتوی کردیا گیا۔
کچھ رپورٹس میں اشارہ دیا گیا کہ حکومتی نمائندوں اور فضل الرحمان کے درمیان اقتدار کی تقسیم کے حوالے سے ایک ’میگا‘ معاہدہ ہونے والا ہے۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ کی اتوار کی رات دیر گئے پارلیمنٹ ہاؤس آمد نے ان قیاس آرائیوں کو تقویت دی کہ بالآخر حکومت اور فضل الرحمان کی سیاسی جماعت کے درمیان اتفاق رائے ہوگیا ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد مسکراتے ہوئے مولانا فضل الرحمان سیدھا اعلیٰ عدلیہ کے آئینی پیکج سے متعلق خصوصی کمیٹی کے کمرے میں چلے گئے۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ ایک گھنٹے سے زائد وقت تک کمیٹی روم میں رہے جب کہ اتوار کی صبح سے پارلیمنٹ ہاؤس میں موجود مختلف میڈیا اداروں سے تعلق رکھنے والے متعدد صحافی اہم معلومات کی تلاش میں بے چینی سے باہر انتظار کررہے تھے۔
لیکن فضل الرحمان کوئی باضابطہ میڈیا ٹاک کیے بغیر کمیٹی روم سے چلے گئے، جس سے یہ تاثر ملا کہ حکومت اور فضل الرحمان کی جماعت کے درمیان سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
بعد ازاں میڈیا سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ مولانا نے ہماری حمایت نہیں کی۔
اس سے قبل حکمران دھڑے کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت میں حزب اختلاف یہ دعویٰ کرتی رہی کہ ان کی متعلقہ جماعتیں غالب پوزیشن میں ہیں۔
حکمراں جماعت کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کے لیے کافی تعداد ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ وہ پارلیمنٹ میں حکومت کے عدالتی پیکج کو شکست دینے کی پوزیشن میں ہیں۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس آج دوپہر ساڑھے بارہ بجے ہوں گے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments