یہ پرانے دن نہیں ہیں؛ خاص طور پر جب معیشت کی بات آتی ہے اور حکومت کو امید نہیں کرنی چاہیے کہ وہ مناسب وقت پر، سیاسی طور پر درست، لیکن بالکل کھوکھلے پالیسی بیانات کے ساتھ چھوٹ جائے گی۔ مثال کے طور پر ”کفایت شعاری کے اقدامات“ کے بارے میں فنانس ڈویژن کے نوٹیفکیشن کو لے لیجیے جس میں اس کے سطحی اقدامات جیسے نئی گاڑیوں اور بیرون ملک طبی علاج پر عارضی پابندیاں شامل ہیں؛ گویا ایسا لگتا ہے کہ حکومت خود دو بہت اہم نکات کو نہیں سمجھتی۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کی باتیں شہ سرخیوں میں ضرور آئیں گی، جیسا کہ حکومت کی کسی بھی ہدایت کے ساتھ ہوتا ہے، لیکن وہ کرنٹ اکاؤنٹ میں موجود بہت سے غیر ضروری عدم توازن کی سطح کو بھی نہیں چھیڑیں گے، جو صرف اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی فضول خرچی کی وجہ سے ہے۔

اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ لوگ، جن میں سے زیادہ تر افراد ٹیکسز، ٹیرف اور بڑھے ہوئے بلوں کی صورت میں حکومت کی نااہلی کی وجہ سے بھاری قیمت ادا کررہے ہیں، اب ان ہتھکنڈوں کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اور انہیں کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔

وہ یہ بھی شک کرتے ہیں، اور بالکل درست ہے، کہ یہ ظاہری اقدامات بھی بہت کم وقت کیلئے زیادہ سے زیادہ نافذ کیے جائینگے۔ شاید اس وقت تک جب تک میڈیا اپنے کاروبار کیلئے کہیں اور دیکھنے پر مجبور نہ ہوجائے۔ اور بجٹ میں جو بھی کمی آئے گی اسے ایک بار پھر عوام ہی کو پورا کرنا ہوگا۔ لہٰذا، جس طرح ملک بھر میں منصفانہ ٹیکسیشن کا وعدہ محض ہوا ثابت ہوا، اسی طرح سرکاری طور پر بیلٹ سخت کرنے کے دعوے میں بھی کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔

یقینی طور پر وزیر خزانہ سمجھتے ہیں کہ معیشت کو لائف سپورٹ کے بغیر زندہ رکھنے کیلئے تمام خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کا آئندہ پروگرام ملک کا آخری پروگرام ہوگا بشرطیکہ ”ہم ساختی اصلاحات لائیں“۔

تاہم، درحقیقت ایسی اصلاحات کے کوئی واضح آثار نظر نہیں آ رہے جن کی ضرورت ہے، نہ ہی ان کو نافذ کرنے کا کوئی ارادہ دکھائی دیتا ہے، جب بیان بازی کو ٹھوس پالیسی میں تبدیل کرنے کا وقت آتا ہے۔ ہم نے یہ بجٹ کے وقت دیکھا، خاص طور پر جب بڑے، روایتی طور پر محفوظ شعبوں پر ٹیکس لگانے کی بات آتی ہے۔ اور ہم اسے ایک بار پھر دیکھ رہے ہیں جب حکومت کو اپنے بڑے بجٹ میں کٹوتی کرنے کی ضرورت ہے۔

بہر حال، جلد یا بدیر، ہر کسی کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ حکومت کی جانب سے خود پر نچھاور کی جانے والی مراعات اور سہولتیں قابلِ پائیدار نہیں ہیں۔افسوس کی بات ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اقتدار میں بیٹھے لوگ اس سبق کو مشکل طریقے سے سیکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ پہلے سے ہی افواہیں ہیں کہ ای ایف ایف (توسیعی فنڈ سہولت) میں تاخیر حکومت کی جانب سے پہلے آئی ایم ایف کی شرائط پر رضامندی ظاہر کرنے اور پھر ان پر مناسب طریقے سے عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ حقیقت کیا ہے کیونکہ وزارت خزانہ سے صرف یہی پیغام آتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے، لیکن تاخیر اب بہت سنجیدہ سوالات اٹھا رہی ہے اور حکومت کی اپنی کارروائیوں میں کافی کچھ ہے جس سے لوگ خود ہی اندازہ لگا رہے ہیں۔

یہ صورت حال کہیں زیادہ سنجیدگی کی متقاضی ہے۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت یہ بھول گئی ہو کہ پچھلے سال ہی ملک ڈیفالٹ ہونے کے کتنے قریب پہنچ گیا تھا، جب پچھلے ای ایف ایف کو اچانک معطل کردیا گیا تھا؟ یا اگلی لائف لائن کو محفوظ بنانے میں ناکامی یقینی طور پر ہمیں اسی طرح کی صورتحال میں کس طرح دھکیل دے گی؟ کیا وہ واقعی محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایک عارضی تکلیف ہے اور وہ اب بھی معمول کے مطابق کاروبار جاری رکھ سکتے ہیں؟

ملک کے پاس ابھی بھی اس طوفان سے نکلنے کا موقع ہے۔ لیکن، جیسا کہ وزیر خزانہ نے خود وضاحت کی، اس کے لیے ”ساختی اصلاحات“ کی ضرورت ہوگی۔ ان اصلاحات کے بغیر، یہ ای ایف ایف – جو جلد ہی باقاعدہ طور پر شروع ہونا چاہیے – پہلے کی طرح رک جائے گا۔ اور پھر تمام شرطیں ختم ہو جائینگی۔ لہذا، حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام قسم کی فضول خرچیوں کا جائزہ لے اور انہیں کم کرے۔ یہ حیران کن ہے کہ حکومت نے ابھی تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کیا۔ حکومت کے پاس بہت زیادہ وقت نہیں کہ وہ اپنے معاملات کو درست کر سکے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف