کپاس کی پیداوار پاکستان کی زرعی معیشت کی بنیاد ہے۔ یہ نہ صرف ٹیکسٹائل کی صنعت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ یہ برآمدات کو فروغ دینے اور اقتصادی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تاہم حالیہ رجحانات کپاس کی پیداوار میں نمایاں اور پریشان کن کمی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ گراوٹ پاکستان کی معیشت کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے، خاص طور پر کسان برادری کیلئے، جو پہلے ہی متعدد چیلنجز کا سامنا کررہی ہے۔ اسی دوران، ٹیکسٹائل صنعت کے کردار پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں، کیونکہ یہ ابھی تک کپاس کی پیداوار کو بڑھانے یا اہم تحقیقی اداروں کی مدد کرنے کیلئے کوئی فعال طور پر کام نہیں کر رہی ہے۔

پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی (پی سی سی سی) کاٹن ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے حوالے سے ملک کی سب سے بڑی اتھارٹی ہے۔ یہ ملک میں سب سے بڑا اور قیمتی جین پول (جرم پلسم) برقرار رکھتی ہے، جو کپاس کی نئی، زیادہ پیداوار والی اقسام تیار کرنے کیلئے ضروری ہے۔اس کے علاوہ، پی سی سی سی میں اعلیٰ معیار کے زرعی سائنسدانوں اور ماہرین کی ٹیم موجود ہے جو کپاس کی پیداوار کو بہتر بنانے اور جدید کاشت کے طریقوں کو دریافت کرنے کے لیے وقف ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں پھیلے ہوئے تحقیقاتی مراکز کے ساتھ، پی سی سی سی کے پاس کپاس کی کاشت میں نمایاں پیش رفت کرنے کیلئے مناسب انفرااسٹرکچر موجود ہے۔ بدقسمتی سے، ٹیکسٹائل انڈسٹری کی طرف سے مالی مدد کی کمی کی وجہ سے یہ صلاحیت بڑی حد تک استعمال نہیں کی جاتی ہے۔ کئی سالوں سے، ٹیکسٹائل صنعت روئی کی سیس ادا کرنے کی ذمہ داری سے بچتی رہی ہے—جو کہ فی گانٹھ پر 50 روپے کی ایک معمولی فیس ہے—جو پی سی سی سی کی فنڈنگ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس مسلسل بچاؤ نے پی سی سی سی کی تحقیق کرنے کی صلاحیت کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جس کے نتیجے میں کپاس کی پیداوار میں مجموعی طور پرکمی واقع ہوئی ہے۔

کپاس کے سب سے بڑے صارف ہونے ناطے ٹیکسٹائل انڈسٹری پر تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کرنے کی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو کپاس کے شعبے کو دوبارہ زندہ کرسکتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں کپاس نہ صرف معیشت کو ایندھن فراہم کرتی ہے بلکہ لاکھوں کسانوں کے ذریعہ معاش کی بھی مدد کرتی ہے، ٹیکسٹائل انڈسٹری کو قومی مفاد کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری اور پی سی سی سی کے درمیان تعاون کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اگر صنعت پی سی سی سی کی تحقیقی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کے لئے کام کرتی ہے تو آنے والے سالوں میں کپاس کی پیداوار میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آسکتا ہے۔ اندازوں کے مطابق 2026 یا 2027 تک کپاس کی پیداوار 15 ملین گانٹھوں تک پہنچ سکتی ہے جو پاکستان کی 18 ملین گانٹھوں کی مکمل پیداواری صلاحیت کے قریب پہنچ جائے گی۔ ماضی کی کوششوں نے اس شراکت داری کی اہمیت کو ثابت کیا ہے۔ جب ٹیکسٹائل انڈسٹری نے پی سی سی سی کی تحقیقی کوششوں کی حمایت کی تو ملک نے 15 ملین گانٹھوں کی ریکارڈ پیداوار حاصل کی تھی ، جو صنعت اور تحقیق کی مل کر کام کرنے کی طاقت کا واضح ثبوت ہے۔

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کی جانب سے حالیہ برسوں میں اپنایا جانے والا موقف انتہائی تشویش ناک ہے۔ 2016 کے بعد سے اپٹما نے کاٹن سیس کی مد میں ادائیگی روک دی ہے، ایک ایسا اقدام جس نے نہ صرف پی سی سی سی کو کمزور کیا ہے بلکہ کپاس کی صنعت کی ترقی میں بھی رکاوٹ ڈالی ہے۔ اگرچہ بڑے ٹیکسٹائل گروپ اپنے پیداواری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے روئی درآمد کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں، لیکن یہ ایک پائیدار حل نہیں ہے۔ صنعت کب تک درآمدات پر انحصار کرسکتی ہے؟ کیا یہ عارضی حل پاکستان کے کپاس کے شعبے کو طویل مدت میں مضبوط کرے گا؟ مزید برآں چھوٹے کاروباری مالکان اور کاشتکار جو کپاس درآمد کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے،بڑھتی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ ان اسٹیک ہولڈرز کے لیے مقامی کپاس کی پیداوار بڑھانا ہی واحد قابل عمل آپشن ہے، اور اس کے لیے پی سی سی سی جیسے تحقیقی اداروں کی مضبوط حمایت ضروری ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری قلیل مدتی، ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفاد پر توجہ دے۔ مضبوط قومی اداروں کی تعمیر میں کئی دن نہیں بلکہ دہائیاں لگتی ہیں۔ اگر ٹیکسٹائل کی صنعت اب پی سی سی سی کی مدد کے لئے آگے بڑھتی ہے تو مستقبل قریب میں معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ، جس سے نہ صرف صنعت بلکہ ملک کو بھی فائدہ ہوگا۔پاکستان جیسے زرعی ملک میں کپاس کی پیداوار کو فروغ دینا نہ صرف اہم ہے بلکہ ضروری بھی ہے۔ کپاس کی صنعت تحقیق و ترقی میں مضبوط بنیاد کے بغیر ترقی کرہی نہیں سکتی اور پی سی سی سی اس بنیاد کو فراہم کرنے کے لیے موزوں ترین ادارہ ہے۔ اگر پاکستان کو کپاس کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اس کا ٹیکسٹائل سیکٹر عالمی منڈیوں میں مسابقتی رہے تو صنعت اور تحقیقی اداروں کے درمیان تعاون ناگزیر ہے۔

آخر میں یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ روئی کی صنعت اور ٹیکسٹائل سیکٹر کی کامیابی ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ قومی تحقیقی اداروں جیسے پی سی سی سی کو مضبوط کیے بغیر، کپاس کی پیداوار بڑھانے کا مقصد حاصل کرنا مشکل رہے گا۔ ٹیکسٹائل صنعت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کرے، نہ صرف اپنی بقاء کے لیے بلکہ پورے ملک کی معیشت کی ترقی کے لیے بھی یہ کرنا ضروری ہے

اب وقت آگیا ہے کہ انفرادی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی مفادات پر توجہ دی جائے تاکہ پاکستان کی کپاس کی صنعت ایک بار پھر پھل پھول سکے اور ملک کی معاشی خوشحالی میں بامعنی کردار ادا کرسکے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف