سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( ایس سی سی آئی) کی جانب سے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز سے معاہدوں کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کردی گئی ہے۔

رٹ پٹیشن میں ایس سی سی آئی نے استدعا کی کہ تمام آئی پی پیز کے معاہدوں کا جائزہ لے کر فرانزک آڈٹ کیا جائے۔

درخواست میں مزید استدعا کی گئی ہے کہ آئی پی پی ادائیگیوں کے مسئلے کو درست پیرامیٹرز کے مطابق حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں اور بجلی صارفین کی تمام کیٹیگریز کے لیے خاطر خواہ ریلیف فراہم کیا جائے۔

رٹ میں آئی پی پیز کے ساتھ تجدید اور نئے معاہدوں پر دستخط کرنے کی مخالفت کی گئی ہے۔

کمیٹی نے آر ایف او پر مبنی آئی پی پیز کو ادا کیے جانے والے اضافی منافع کے حوالے سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بجلی کے خصوصی اجلاس کی سفارشات پر عمل درآمد کا بھی مطالبہ کیا۔

ان خیالات کا اظہار صدر سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری فواد اسحاق نے نائب صدر اعجاز خان آفریدی، انجمن تاجران لائف ٹائم کے صدر حاجی محمد افضل، ایس سی سی آئی کے سابق صدور ریاض ارشد، ملک نیاز احمد اور تاجر رہنماؤں کے ہمراہ چیمبر ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

پریس کانفرنس کے دوران فواد اسحاق نے کہا کہ آئی پی پیز کے معاہدے ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہیں اور ایف پی سی سی آئی اور چیمبرز نے ان کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔

ایس سی سی آئی کے صدر نے آئی پی پیز کو معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیا جس کی وجہ سے صنعتوں، کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں میں جمود آگیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئی پی پیز پاکستان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس کا خاتمہ ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نصب شدہ آئی پی پیز ملک کی ضرورت سے زیادہ ہیں۔ صحافیوں کے سامنے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے فواد اسحاق نے بتایا کہ پاکستان میں بجلی کی کل نصب شدہ صلاحیت 45 ہزار میگاواٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال پاکستان میں پن بجلی کی پیداوار 11 ہزار میگاواٹ رہی جبکہ نیوکلیئر پیداوار 3 ہزار 500 میگاواٹ اور گرین انرجی اور سولر انرجی 3 ہزار میگاواٹ رہی۔

ایس سی سی آئی کے سربراہ نے الزام عائد کیا کہ آئی پی پیز کے معاہدے لوگوں کے ذاتی فائدے کیلئے کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ 12 سے زائد نئے آئی پی پیز سے معاہدے کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایف پی سی سی آئی اور چیمبرز کے احتجاج کے بعد 6 آئی پی پیز کی تجدید روک دی گئی ہے۔ فواد اسحاق نے کہا کہ ہر سال کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادائیگی کی لاگت میں اضافہ ہورہا ہے اور اس سال حکومت آئی پی پیز کو کیپیسٹی چارجز کی مد میں 2800 ارب روپے ادا کرے گی۔

مزید برآں انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز نے اپنی بیلنس شیٹ میں 36 سے 45 فیصد منافع ظاہر کیا جبکہ معاہدے میں 15 سے 17 فیصد منافع کی اجازت دی گئی تھی۔

انہوں نے فرانزک آڈٹ کرانے اور آئی پی پیز کے معاہدوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

پریس کانفرنس میں ایس سی سی آئی کے سابق نائب صدر ضیاء الحق سرحدی، سابق نائب صدر عبدالجلیل جان، خالد سلطان خواجہ، ایگزیکٹو ممبران حاجی غلام حسین، فضل مقیم، اسماعیل صافی، سابق صوبائی چیئرمین اے پی سی ای اے مشتاق احمد، فہد امین، احسان اللہ، راشد اقبال صدیقی، صدر گل، فیض رسول، فضل واحد، اشتیاق پراچہ، سیکرٹری جنرل مقتصد احسن اور سیکرٹری سہیل انجم اور دیگر نے بھی شرکت کی۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف