کوئی تعجب کی بات نہیں کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے ملک کے بگڑتے ہوئے مالی معاملات پرشدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ آڈٹ سال 2023-24 کی رپورٹ پر ان کے دستخط تھے، اس وقت کوئی اور نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے جب 38.67 کھرب روپے کے بجٹ میں سے 4 فیصد سے بھی کم سماجی واقتصادی خدمات کے لئے بچا ہو، 8 ٹریلین روپے سے زائد مالیت کی 93 فیصد سپلیمنٹری گرانٹ پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہے اور یہ غیر خرچ شدہ رہتی ہیں جو کہ عوامی وسائل کے نقصان کی نمائندگی کرتی ہیں۔
ہم بہت عرصے پہلے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں بڑھتے ہوئے قرضوں کی ادائیگی کے اخراجات سماجی و اقتصادی خدمات پر خرچ کو محدود کردیتے ہیں اور شہریوں کے معیار زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔
چونکہ قرضوں کی ادائیگی مالی سال 2022 میں 25 کھرب روپے (کل اخراجات کا تقریباً 84 فیصد، 29.6 کھرب روپے) سے بڑھ کر مالی سال 2023 میں 34 کھرب روپے (تقریباً 91.4 فیصد یا 38.67 کھرب روپے) ہو گئی ہے، اس رجحان نے واضح طور پر اس مقام تک پہنچا دیا ہے جہاں یہ مختصر مدت میں بھی قابل برداشت نہیں ہے۔
آپ کو یہ سمجھنے کیلئے عام فہم حساب کتاب کی ضرورت ہے کہ ہم کس سمت جارہے ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کے اپنے الفاظ میں اخراجات کا ایک بڑا حصہ، یعنی 96.26 فیصد (قرض کی ادائیگی، دفاع، اور سول حکومت کے اخراجات) پر خرچ کیا گیا ہے جس میں سے مالی سال 2022-23 کے دوران قرض کی ادائیگی اور سود کی ادائیگی پر 91.42 فیصد خرچ ہوا لہٰذا وفاقی حکومت کے پاس سماجی و اقتصادی کاموں (قرضوں کے علاوہ) کے لیے کل اخراجات کا صرف 12 فیصد رہ گیا جو گزشتہ سال کے 16.07 فیصد کے مقابلے میں کم ہے۔
اور ایسا نہیں ہے کہ حالات بہتر ہونے جا رہے ہیں کیونکہ، جیسے کہ سب کو اب سمجھ آ چکا ہے،ای ایف ایف (توسیعی فنڈ سہولت) کی طرف سے عائد کی جانے والی مالیاتی اور مانیٹری سختیوں، جو دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے اہم ہیں، حکومت کی مالیاتی گنجائش کو مزید محدود کردیں گی۔
یہ یقینا سماجی و اقتصادی خدمات کیلئے مختص رقم کو مزید کم کردے گا جو پہلے ہی بری طرح متاثر ہوچکی ہیں۔ یہ قرض کے جال کیلئے نصابی اور کلاسیکل طریقہ ہے۔ ہم اب صرف مزید قرض حاصل کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں، جو ایسے معاملات میں پرانے، پختہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے ضروری ہوتا ہے، سرکس اب پہلے کی طرح نہیں چل سکتا ۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ساختی تبدیلیاں نہ کی گئیں تو حکومت جیسے ہی ای ایف ایف کی سخت شرائط میں سے کسی ایک کی خلاف ورزی کرے گی، تب ہی نیچے سے زمین کھسک جائے گی۔
یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ حکومت عوام کی شکایات اور خزانے کے دباؤ کے باوجود معیشت کے روایتی وسیاسی طور پر محفوظ شعبوں پر ٹیکس لگانے سے انکار کرکے اپنی محصولاتی مہم کو خود کو سبوتاژ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس طرح حکومت اپنی مالیاتی گنجائش کو سیاست کے ذریعے محدود کرنے دیتی ہےجس سے ملک کی بقا پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس غیر سنجیدگی نے ہمارے دوستوں میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے – عام طور پر قرض دینے والے – بھی اب ہم سے دور ہو گئے ہیں۔
وزیر خزانہ اپنی معمول کی تقاریر جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن مارکیٹ پہلے ہی جانتی ہے کہ آئی ایم ایف نے اگست کے لیے پاکستان کو اپنے ایگزیکٹو بورڈ کے شیڈول میں شامل نہیں کیا کیونکہ دوست ممالک کی جانب سے قرضوں کی واپسی کی گارنٹی ابھی تک نہیں آئی ہے۔
اب بری مینجمنٹ اور جانبداری جیسے عوامل جان بوجھ کر غلط معلومات کے ساتھ مل کر عوام کو جو بے تحاشہ اور غیر منصفانہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، ان کے اصل حالات سے لاعلم رکھنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ حکمرانوں کی اضافی خرچوں کے لئے پیسہ فراہم کیا جاسکے۔
یہ بہت غیر منصفانہ ہے۔ اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اے جی پی آنے والے مالی سال کی آڈٹ رپورٹ پر دستخط کرتے وقت مزید پریشان ہوں گے۔ ملک کی مالی حالت تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ اس وقت، ملک اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو زیادہ تر کبھی بھی زیادہ پانی نہیں سمیٹتا۔
لیکن اب دوست ممالک بھی ہر بار ہمیں بچانے کے لیے نہیں آئیں گے جب ہم خود کو نئی مشکلات میں ڈال لیں گے۔ مارکیٹ کی زبان میں، وہ بری طرح سے پیسے پھینکنے سے تھک چکے ہیں، اسلام آباد اگر آخری بار سنجیدہ بیل آوٹ چاہتا ہے تو اسے و اپنے امور کو بہتر بنانا ہوگا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments