تجارتی طبقے کی طرف سے اپنے کاروبار کے مقام کی بنیاد پر رجسٹریشن اور پیشگی ٹیکس کی ادائیگی کے خلاف مزاحمت جسے اس بات کے ثبوت کے ساتھ چیلنج کیا جاسکتا ہے کہ اس مخصوص مقام پر آمدن اوسط سے زیادہ نہیں ہے، بدھ کو واضح طور پر محسوس کی گئی، جب ملک کی تمام بڑی مارکیٹوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مشکلات غصے میں بدل سکتی ہیں اگر شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری رہی۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)کی جانب سے اسی روز اپ لوڈ کیے گئے تاجروں کے لیے رجسٹریشن فارم میں ریفنڈ کے لیے بینک اکاؤنٹ کی معلومات مانگی گئیں۔ رجسٹریشن کا مطلب یہ ہوگا کہ فائلر سیلز ٹیکس موڈ میں عائد ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کرے گا جو نان فائلرز کے بجائے فائلرز پر لاگو ہوتا ہے جو موجودہ 2 فیصد کے بجائے 0.1 فیصد ہے۔

سوال یہ ہے کہ آیا سادہ فارم تاجروں کو اس قدر مطمئن کرے گا کہ مزید ہڑتال کی کال کو روکا جا سکے یا نہیں؟

تاجروں نے رجسٹریشن سے منسلک ایڈوانس ٹیکس ادا کرنے سے انکار کردیا ہے اور اس کی وجہ حالیہ برسوں میں ان پٹ اخراجات میں نمایاں اضافہ بتایا ہے ( جس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے) جس کی وجہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ طے شدہ غیر مصالحتی شرائط کے تحت انتظامی اقدامات ہیں جن میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ، تیل اور مصنوعات کی بین الاقوامی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے نقل و حمل کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ پٹرولیم لیوی بھی شامل ہے جو کہ فی لٹر 60 روپے پر ہے اور 2024 کے مالیاتی بل کے ذریعے حکومت کو اس کو 70 روپے فی لٹر تک بڑھانے کا اختیار حاصل ہے۔

ان کی منظم مزاحمت کی ایک اور واضح وجہ یہ ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ جب ایک بار ریٹرن داخل کیے جائیں گے، تو حکومت ہر سال ٹیکس شرح میں اضافہ کرے گی جیسے کہ اس نے پٹرولیم لیوی کے معاملے میں کیا ہے۔ یہ ایک آسان ہدف ہے جس سے رواں سال 1281 ارب روپے حاصل کرنے کا بجٹ رکھا گیا ہے جو کہ کل غیر ٹیکس آمدن کا تقریباً 27 فیصد اور اس سال ایف بی آر کے ذریعے جمع کیے جانے والے کل ٹیکسز کا 10 فیصد ہے۔

کمپنیوں اور کاروباری اداروں پر کم از کم ٹیکس حکومت کی طرف سے اپنائے جانے والے اس عمل کی ایک اور مثال ہے۔ ابتدائی طور پر سالانہ ٹرن اوور کا 0.5 فیصد کم از کم ٹیکس کے طور پر لگایا گیا تھا۔

آج یہ ٹیکس جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہوتا ہے، ٹیکس دہندگان کو نقصان پہنچنے کے باوجود ادا کرنا پڑتا ہے، کچھ زمرے میں یہ ٹرن اوور کا 8 فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔

نئے رجسٹرڈ تاجروں کیلئے رجسٹریشن اور پہلے ٹیکس ریٹرن فائل کرنے سے پہلے تمام سابقہ ٹرانزیکشنز کے لئے ایمنسٹی کی عدم موجودگی میں انہیں اس اسکیم میں آنے کے لئے قائل کرنا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ اس سے ان کے پاس موجود اسٹاکس اور اثاثوں پر اضافی ٹیکس اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دوسرے الفاظ میں تاجروں کے خدشات بالکل جائز ہیں اور اس لیے ان کے متعلقہ مسائل کو سمجھنا ضروری ہے۔

تاہم دوسری جانب حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس وقت تک کسی ایمنسٹی میں توسیع کرے جب تک وہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ہے۔ مزید یہ کہ اس ٹیکس کی کامیابی یا ناکامی کے امکانات کو سمجھنے کے لیے اس کوشش کو تاریخی تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔

پاکستان تین حالیہ سویلین حکومتوں (2008 سے) کے دوران آئی ایم ایف کے پروگراموں میں شامل رہا ہے اور تینوں نے تاجروں کو رجسٹریشن اور ایڈوانس ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی ہے۔

سال 2008 سے 2013 کے دوران پیپلز پارٹی کی زیر قیادت حکومت ہر قومی شناختی کارڈ سے منسلک نادرا کے پاس دستیاب خریداری کے تفصیلی اعدادوشمار سے آگاہ تھی جس نے تاجروں پر براہ راست ٹیکس عائد کرنے کی کوشش کی لیکن ہڑتالوں کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس وقت جاری آئی ایم ایف پروگرام کو معطل کر دیا گیا تھا اور اس کی دو قسطیں باقی تھیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ریونیو بڑھانے کی کوشش میں فائلرز پر کم اور نان فائلرز پر زیادہ ٹیکس عائد کیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔

حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام مکمل کیا لیکن تاریخی طور پر بلند کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پیچھے چھوڑا جس کی وجہ سے خان انتظامیہ کو ایک اور آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کی ضرورت پڑی۔

سال 2020 کے اوائل میں کوویڈ کا آغاز ٹیکس اصلاحات میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی کیونکہ حکومت نے 2022 کے اوائل میں سیاسی مقاصد کے لئے بھاری غیر فنڈڈ سبسڈی دی جس کی وجہ سے سہ ماہی جائزوں میں ایک بار پھر تاخیر ہوئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج تاجروں اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ نہ صرف ملکی معیشت پر اثر انداز ہو رہا ہے بلکہ عام لوگوں کو بھی بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس مسئلے کا فوری حل واضح ہے: ہدف بنائے گئے تاجروں کی تعداد تقریباً 3.2 ملین ہے، انہیں شامل کرنے میں وقت لگے گا، لیکن حکومت ایک چھوٹے گروپ پر توجہ مرکوز کر سکتی ہے، یعنی وہ افراد جو زیادہ تر ملک کی اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور جن کی آمدن قومی اوسط سے بہت زیادہ ہے، لیکن وہ انکم ٹیکس کی وہ شرح نہیں ادا کرتے جو تنخواہ دار طبقہ ادا کرتا ہے۔

صوبوں نے جنوری 2025 تک زرعی آمدنی پر ٹیکس کو وفاقی انکم ٹیکس کے نظام کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی آئی ایم ایف کی شرط سے اتفاق کیا ہے، وقت بتائے گا کہ اس شرط پر کب عمل درآمد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکس کے ڈھانچے میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے اور بالواسطہ ٹیکسوں (ایف بی آر کے تمام محصولات کا 75 فیصد تک) پر بھاری انحصار جس کا اثر امیروں کے مقابلے میں غریبوں پر زیادہ ہے، کو براہ راست ٹیکسوں کے ذریعے مرحلہ وار ختم کیا جانا چاہئے۔ تاجروں کے ساتھ سیاسی طور پر بااثر جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے میں وقت لگ سکتا ہے اور عبوری مدت میں، زیادہ سے زیادہ دو سال میں، حکومت کو اس سال کے بجٹ میں پچھلے سال کے نظر ثانی شدہ تخمینوں کے مقابلے میں جو رقم بڑھائی گئی ہے، اس کے برابر یا اس سے تھوڑی کم، یعنی تقریباً 3 ٹریلین روپے کی حد تک موجودہ اخراجات میں کمی کرنا ہوگی۔

بدقسمتی سے، تاہم، یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ تاجروں کی 28 اگست کی ملک گیر ہڑتال نے اقتصادی غیر یقینی میں اضافہ کیا ہے، باوجود اس کے کہ ملک کی ریٹنگ کو موڈیز نے اپ گریڈ کیا ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف