مسلسل بڑھتی مالی ضروریات معیشت کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے جو حکومت کے حال ہی میں حاصل کردہ استحکام کو برقرار رکھنے کے مقصد کو چیلنج کرتی ہیں۔ رواں سال حکومت کو 32 کھرب روپے جمع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قرضوں کی ادائیگی اور مالی خسارے کو پورا کیا جا سکے۔

اہم مسئلہ بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کو پورا کرنے کا ہے جہاں خلا کی وجہ سے آئی ایم ایف بورڈ اجلاس میں تاخیر ہوئی ہے، حالانکہ اسٹاف لیول ایگریمنٹ (ایس ایل اے) پہلے ہی حاصل کیا جا چکا ہے۔

وزیر خزانہ نے ابتدائی طور پر اس اعتماد کا اظہار کیا کہ آئی ایم ایف بورڈ اگست 2024 میں پاکستان کے پروگرام کی منظوری دے گا تاہم آئی ایم ایف بورڈ شیڈول میں مہینے کے بقیہ حصے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے. اب اسی اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ستمبر میں ہوگا۔

چند ہفتے قبل وزیر خزانہ نے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے درخواست کی تھی کہ وہ چار سال کے لیے کچھ قرضے (بشمول محفوظ ڈپازٹس) کو رول اوور کریں۔ جس کا مقصد سالانہ قرضوں کی واپسی سے دور ہونا، قرض کی مدت میں بہتری لانا اور کریڈٹ ریٹنگز کو بہتر بنانا تھا۔ وہ کامیابی کے لیے پُر اعتماد تھا۔ تاہم ذرائع اشارہ کرتے ہیں اور آنے والی صورتحال اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ چین نے ابھی تک درخواست کا جواب نہیں دیا ہے.

آئی ایم ایف اجلاس میں تاخیر کی وجہ مجموعی مالیاتی ضرورت میں موجود خلیج کے حوالے سے یقین دہانیوں کی ضرورت ہے جو مالی سال 2025 کے لیے تقریباً 2 ارب ڈالر ہے (جس میں سے 1.1 ارب ڈالر تا 1.2 ارب ڈالر پہلے ہی سعودی عرب سے مؤخر تیل کی سہولت کے ذریعے فراہم کیے جا چکے ہیں)۔ مالی سال 26 اور مالی سال 27 کے لیےنرم شرائط کی مد میں بقیہ 3 ارب ڈالر کا ابھی بھی انتظار ہے۔

حکومتی ذرائع اس فرق کو نظر انداز کررہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس تمام مالی وسائل موجود ہیں اور وہ صرف شرائط پر بات چیت کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان مذاکرات میں کتنا وقت لگے گا اور قدرے کم اخراجات کا حقیقی فائدہ کیا ہے جب تاخیر کی وجہ سے بڑھتی غیر یقینی صورتحال اعتماد کو ختم کررہی ہے؟

یہ محسوس ہوتا ہے کہ حکام پوری طرح شفاف نہیں ہیں، شاید حقائق کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے افواہیں پھیلتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ سال کے دوران تقریباً 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی توقعات کے برعکس، اب موجودہ صورتحال میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی کمی کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد ہورہی ہے جو کہ آئی ایم ایف کے بہت ضروری پروگرام کو تعطل کا شکار کررہی ہے۔

اس سے آئی ایم ایف کی جانب سے قرضوں کی پائیداری کے حوالے سے لگائے گئے مفروضوں پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ اگر حکومت مالی سال 25 میں 2 ارب ڈالر کی مالی یقین دہانی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کررہی ہے تو اسی سال 7 سے 8 ارب ڈالر کے نجی قرضوں کی آمد کا اندازہ کتنا حقیقت پسندانہ ہے؟ ناقدین حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں، خاص طور پر وزیر خزانہ کی، جن سے عام طور پر توقع کی جاتی تھی کہ وہ اپنے شاندار بینکاری کیریئر اور تعلقات سے فائدہ اٹھا کر غیر ملکی فنڈنگ کو بہتر بنائیں گے۔

اصل بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر اور غیر ملکی سرمایہ کاری اور قرضوں کی عدم موجودگی حکومت کو کمزور کر رہی ہے۔ مبصرین کی تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ حکومت کی بےچینی بڑھتی جا رہی ہے۔ ٹیکنوکریٹک حکومت کے قیام کی افواہیں زور پکڑ رہی ہیں۔

اس کے جواب میں حکومت بجٹ میں قلیل مدتی اقدامات اور ایڈجسٹمنٹ کا سہارا لے رہی ہے۔ سب سے پہلے وفاقی حکومت نے 200 یونٹس سے کم بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کے لیے تین ماہ کی سبسڈی کا اعلان کیا۔ بعد میں پنجاب حکومت نے دو ماہ کیلئے 200 سے 500 یونٹس استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کیلئے اسی طرح کی سبسڈی کا اعلان کیا جسے پورے ملک میں وفاقی حکومت سے مطابقت کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔

ٹیکسز کے معاملے میں ریٹیلرز کے لیے اقدامات اور طریقوں میں خاموش تبدیلیاں کاروباری برادری میں تشویش پیدا کر رہی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ کمزور ہوتی ہوئی حکومت کا تاثر اسے غیر ضروری سبسڈی جیسے عوامی اقدامات کی طرف دھکیل رہا ہے ، جس کے مالی مضمرات ہوسکتے ہیں اور میکرو اکنامک استحکام پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس کا مطلب آئی ایم ایف کے ساتھ توانائی کے شعبے کیلئے ایم ای ایف پی میں طے شدہ اصلاحات سے دستبرداری ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسے نادان فیصلوں سے بھری ہوئی ہے جو کمزور اور ناکام حکومتوں نے کیے۔ ملک مزید ایسی غلطیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

حکومت کو شفاف اور واضح ہونا چاہیے، مالی خسارے کو پر کرنا چاہئے اور مالی اقدامات کو مضبوطی سے نافذ کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر آنے والے مہینوں میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے آپ وقت پر مسئلہ حل کرکے بعد کی بڑی مصیبت سے بچ سکتے ہیں لیکن یہ صرف تبھی ممکن ہے جب آپ وقت پر کام کرنے کے لئے تیار ہو۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف