اداریہ

بڑھتی آبادی ملک کیلئے فائدہ مند یا ٹائم بم ؟“

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ملک کے قدرتی تقابلی فوائد کی طویل فہرست کا کوئی اختتام نہیں ہےجسے ایک کے بعد ایک آنے...
شائع August 24, 2024

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ملک کے فطری فائدے کی طویل فہرست کا کوئی اختتام نہیں ہے جسے ایک کے بعد ایک آنے والی حکومتوں نے صرف ضائع کیا ہے۔ ایک چیز جس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی وہ یہ ہے کہ پاکستان کی 40 فیصد آبادی 40 سال سے کم عمر اور 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے اور یہ عالمی سطح پر نوجوانوں کی آبادی کے لحاظ سے سب سے کم عمر ملک کے طور پر ابھرا ہے۔

اقوام متحدہ اسے ایک ممکنہ ڈیماگرافک ڈیوڈنڈ (آبادیاتی فائدہ) قرار دیتی ہے، خاص طور پر جب دنیا کے زیادہ تر حصے کی عمر بڑھ رہی ہے جب کہ ہم جوان ہورہے ہیں۔ اور فیصد کے لحاظ سے، ہماری آبادی کا بہت بڑا حصہ دیگر ممالک کے مقابلے میں قوم کی تعمیروترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔

لیکن ہم دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نوجوانوں کی تعداد لاکھوں افراد پر مشتمل ہے جو ملازمتوں اور ایک متحرک معیشت کی تلاش میں ہیں جو انہیں ہر سال فراہم کی جا سکے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار دنیا کے غریب ترین اور ناخواندہ ممالک میں ہوتا ہےاور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے پاس تعلیم اور روزگار کے مواقع نہیں بلکہ انہیں غربت، محرومی اور بڑھتی ہوئی مایوسی کا سامنا ہے۔

یہ بات سامنے آئی ہے کہ معیشت کو ہر سال تقریباً 10 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا کرنی ہوں گی، جس کیلئے 6 فیصد کی مستقل شرح نمو کو برقرار رکھنا ہوگا تاکہ نوجوانوں کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ ورنہ، یہ آبادیاتی فائدہ آبادیاتی آفت میں تبدیل ہوجائے گا، جو مزید غربت اور جرائم کو بھڑکا سکتا ہے۔

اور چونکہ ہماری اقتصادی ترقی 6 فیصد سے بہت کم ہے – گزشتہ 10 سال (مالی سال 2015-24) میں اوسطاً 3.6 فیصد رہی ہے – اور کچھ وقت تک اس سطح تک پہنچنے کا امکان بھی نہیں ہے، لہذا ملک کے لئے جو قدرتی فائدہ ہونا چاہئے تھا وہ پہلے ہی ٹائم بم میں تبدیل ہوچکا ہے جو ٹک ٹک کرنا بند نہیں کرے گا۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر گزشتہ چند سالوں کی مہنگائی اور بے روزگاری نوجوانوں کے لیے بری لگتی ہے تو آنے والا وقت اس سے بھی بدتر ہوگا۔ کیونکہ یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پروگرام کی سخت پیشگی شرائط پوری کرنے سے زیادہ تر نوجوانوں، خاص طور پر ان لوگوں کیلئے جو درمیانے اور کم آمدنی والے گھرانوں میں ہیں، کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور ہر قسط کے ساتھ ٹیکس اور محصولات مزید سخت ہوں گے۔

یہ ایک اور خود ساختہ زخم ہے جس سے دوسرے ممالک، جہاں کی قیادت مقامی آبادی کے بارے میں آگاہ تھی، بہت آسانی سے بچ گئے۔مثال کے طور پر، بھارت بھی نوجوان ممالک کی فہرست میں پیچھے نہیں ہے، لیکن غربت کے باوجود اس نے اپنے نوجوانوں کے لیے ایک متحرک ملازمتوں کی مارکیٹ تیار کر لی ہے جس کے نتیجے میں اس کی معیشت دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بن چکی ہے۔ دوسری طرف، ہم اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں اگر ہمیں قرض دہندگان مل جائیں جو ہمیں ڈیفالٹ سے بچا سکیں۔

اب ہم اتنے پیچھے رہ چکے ہیں کہ اگر اس مسئلے کا حل نکالا بھی جائے تو اس میں طویل عمل سے گزرنا ہوگا، جس کا آغاز طلباء اور نوجوان پیشہ ور افراد کو بنیادی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے سے ہوگا۔ لیکن ایسی چیزیں، خاص طور پر اس پیمانے پر جس کی اس وقت ضرورت ہے، اتنے پیسے کی متقاضی ہیں جو ریاست کے پاس اب خرچ کرنے کے لیے نہیں ہیں؛ حالانکہ حکومت ممبران پارلیمنٹ کو سہولتوں، مراعات اور خصوصی رہائشی سوئٹس کی بوچھاڑ کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتی۔

اقتصادی بحران اور ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرے کی طرح پاکستان کی نوجوان نسل مایوس اورناامید ہے جس کی وجہ ہر دور کی حکومت کی غلط پالیسیاں ہیں ،چاہے کوئی بھی پارٹی اقتدار میں ہو۔ یہ ہمارے رہنماؤں کی وجہ سے ہے کہ ہم ایک بے سمت، دیوالیہ اور عملی طور پر مفلوج معیشت کے ساتھ رہ گئے ہیں۔

اس کے باوجود وہ نوجوانوں اور اس کی پریشانیوں کو صرف اپنے خطرے پر نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ اگر اسے غیر مسلح نہیں کیا گیا تو یہ ٹائم بم یقینی طور پر تباہ کن اثرات کے ساتھ پھٹ جائے گا۔ ہمیں اس رجحان کی حقیقی دنیا کی مثالیں دیکھنے کے لئے خطے میں بہت دور دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف