نائب صدر کملا ہیرس نے امریکی صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدر کے عہدے کے لیے نامزدگی کو باضابطہ طور پر قبول کر لیا۔

نائب صدر کملا ہیرس نے باضابطہ طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدر کے عہدے کے لیے نامزدگی قبول کرتے ہوئے غزہ میں جنگ کے خاتمے اور دنیا بھر میں ظلم و ستم کے خلاف لڑنے کی اپیل کردی۔

ہیرس نے کہا کہ جمہوریت اور ظلم کے درمیان جاری جدوجہد میں، مجھے معلوم ہے کہ میں کہاں کھڑی ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ امریکہ کا مقام کہاں ہے۔ انہوں نے ٹرمپ پر آمروں کے سامنے جھکنے کا الزام لگایا۔ شکاگو کنونشن کے چار روزہ اجلاس کی آخری روز 59 سالہ ہیرس نے خود کو دوبارہ امریکی عوام کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی، جب وہ اور 78 سالہ ٹرمپ قریب قریب مہم کے آخری 11 ہفتوں میں داخل ہو رہے ہیں۔

فلسطینی حامیوں کی جانب سے کئی دنوں تک احتجاج کے بعد جو کنونشن میں بولنے کا موقع نہ ملنے پر مایوس تھے، ہیرس نے اسرائیل کی حفاظت کو یقینی بنانے، غزہ سے یرغمالیوں کو واپس لانے اور فلسطینی علاقے میں جنگ کے خاتمے کا عزم ظاہر کیا۔

انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ یرغمالیوں کے معاہدے اور جنگ بندی کے معاہدے کو مکمل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کے لیے کھڑی رہوں گی ، میں ہمیشہ اس بات کو یقینی بناؤں گی کہ اسرائیل اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتا ہو۔

انہوں نے کہا کہ غزہ میں گزشتہ 10 ماہ کے دوران جو کچھ ہوا ہے وہ تباہ کن ہے۔ بے شمار معصوم جانیں ضائع ہوئیں، بے یار و مددگار بھوکے لوگ بار بار حفاظت کے لیے بھاگ رہے ہیں۔ مصائب کی شدت دل دہلا دینے والی ہے۔ صدر بائیڈن اور میں اس جنگ کو اس طرح ختم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ اسرائیل محفوظ ہو، یرغمالیوں کو رہا کیا جائے، غزہ میں مصائب کا خاتمہ ہو اور فلسطینی عوام کو ان کے وقار، سلامتی، آزادی اور خود ارادیت کے حق کو تسلیم کرنے کا موقع ملے۔

اپنی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اب تک کے مضبوط ترین بیانات میں ہیرس نے کہا کہ وہ ایران کے خلاف امریکی مفادات کے دفاع کے لیے جو بھی ضروری ہوگا وہ کریں گی اور ظالموں اور ڈکٹیٹروں کے ساتھ تعاون نہیں کریں گی۔

انہوں نے کہا کہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سمیت ایسے رہنما ٹرمپ کی حمایت کررہے ہیں۔ انہوں نے روس اور نیٹو اتحادیوں کے خلاف جنگ میں یوکرین کے ساتھ کھڑے ہونے کا عہد کیا۔

ہیرس امریکہ کی پہلی خاتون صدر ہوں گی

ہیرس ایک ماہ قبل ڈیموکریٹک امیدوار کے طور پر ابھرکر سامنے آئی تھیں جب 81 سالہ صدر جو بائیڈن کے اتحادیوں نے انہیں صدارتی انتخاب چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔

کامیاب ہونے کی صورت میں وہ پہلی خاتون منتخب امریکی صدر کی حیثیت سے تاریخ رقم کریں گی۔ انہوں نے 5 نومبر کے انتخاب کو تلخی، مایوسی اور ماضی کی تقسیم کرنے والی جنگوں سے آگے بڑھنے کا ایک قیمتی، مختصر موقع قرار دیا۔

ان پر درمیانی طبقے کے لیے جدوجہد نہ کرنے، اپنے ٹیرف تجاویز کے ذریعے ٹیکس بڑھانے کی منصوبہ بندی کرنے اور امریکی سپریم کورٹ کے لیے اپنی نامزدگیوں کے ذریعے اسقاط حمل کے آئینی حق کے خاتمے کی راہ ہموار کرنے کا الزام لگایا۔

ہیرس نے صدارتی استثنیٰ کے بارے میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے اور ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی صورت میں پیدا ہونے والے خطرات کا ذکر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ذرا تصور کریں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس کوئی گارڈ ریل نہیں ہے ۔ ٹرمپ، جنہوں نے ہیرس کی تقریر کا حقیقی وقت میں جواب دینے کا وعدہ کیا تھا، نے سوشل پر پیغامات کی ایک سیریز پوسٹ کی، جس میں انہوں نے ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ نااہلی اور کمزوری کی حمایت کرتی ہیں - ہمارے ملک کا پوری دنیا میں مذاق بنایا جا رہا ہے! اور دنیا کے ظالم کبھی بھی اس کا احترام نہیں کریں گے!

Comments

200 حروف