دنیا

افغانستان پر کنٹرول کے بعد طالبان نے پہلی بار امارات کیلئے سفیر تعینات کردیا

طالبان حکومت کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اس نے متحدہ عرب امارات میں اپنا پہلا تسلیم شدہ سفیر مقرر کیا ہے اور اب چین...
شائع August 22, 2024

طالبان حکومت کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اس نے متحدہ عرب امارات میں اپنا پہلا تسلیم شدہ سفیر مقرر کیا ہے اور اب چین کے بعد امارات اس سطح پر سفیر قبول کرنے والا دوسرا ملک ہے۔

متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ طالبان کی حکومت کو کسی بھی غیر ملکی دارالحکومت نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے اور صرف بیجنگ نے باضابطہ طور پر ایک سفیر کی اسناد قبول کی ہیں۔

طالبان نے ہمسایہ ملک پاکستان سمیت کئی ممالک میں اپنے سفیر بھیجے ہیں تاکہ وہ اپنے سفارت خانوں کی سربراہی کر سکیں۔

طالبان کے زیر انتظام وزارت خارجہ نے بدھ کی رات دیر گئے ایک بیان میں کہا کہ مولوی بدرالدین حقانی کو امارات کیلئے سفیر نامزد کیا گیا ہے اور انہوں نے متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کے اسسٹنٹ انڈر سیکریٹری برائے پروٹوکول امور کو اپنی اسناد پیش کیں۔

وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے نئے سفیر جلد ہی متحدہ عرب امارات کے امیر کو باضابطہ طور پر اپنی اسناد پیش کریں گے۔

طالبان کے متحدہ عرب امارات کے ساتھ اقتصادی تعلقات ہیں، جس نے 2022 میں کابل ہوائی اڈے پر آپریشن چلانے کے ٹھیکے حاصل کیے تھے۔ امریکہ کی جانب سے خصوصی طور پر عالمی دہشت گرد قرار دیے جانے والے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے جون میں ابوظہبی میں متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان سے ملاقات کی تھی۔

طالبان 15 اگست 2021 کو اس وقت افغان دارالحکومت میں داخل ہوئے جب برسوں کی مغربی حمایت سے قائم کی گئی افغان سکیورٹی فورسز بکھر گئیں اور امریکی حمایت یافتہ صدر اشرف غنی فرار ہو گئے۔

اگرچہ چین اور متحدہ عرب امارات نے باضابطہ طور پر طالبان انتظامیہ کو تسلیم نہیں کیا ہے اور نہ ہی حکومتی سطح پر تعلقات میں تبدیلی کی کوئی تصدیق ہوئی ہے لیکن سفارت کاروں اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ باضابطہ طور پر سفیر کو قبول کرنا بین الاقوامی سفارت کاری کا ایک گرے ایریا ہے جو تعلقات کو بہتر بنا سکتا ہے۔

بہت سی حکومتوں، خاص طور پر واشنگٹن سمیت مغربی ممالک نے کہا ہے کہ طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا راستہ اس وقت تک مسدود رہے گا جب تک وہ خواتین کے حقوق کے بارے میں اپنا راستہ تبدیل نہیں کرتے اور لڑکیوں اور خواتین کے لیے ہائی اسکول اور یونیورسٹیاں دوبارہ نہیں کھولتے۔

طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی قانون کی تشریح کے مطابق حقوق کا احترام کرتے ہیں اور اس کے بینکاری شعبے پر پابندیاں اور تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے اس کی معیشت متاثر ہو رہی ہے۔

Comments

200 حروف