ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں حکومتی مشینری کسی الگ دنیا میں کام کررہی ہے جہاں ملک کو معاشی بحران کا سامنا نہیں ہے، جہاں اس کی ٹیکس وصولیاں مضبوط اور مستقبل کے مالی چیلنجز محض ایک دور کی فکر ہیں، نہ کہ ایک فوری ترجیح جو فوری حل کی متقاضی ہو۔

ایک مقامی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ایک بات جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے آڈیٹر جنرل نے صوبائی حکومتوں پر ٹیکس چوری کے بڑے پیمانے پر الزامات عائد کیے ہیں، کیونکہ انہوں نے 2017-18 سے 2021-22 کے دوران فیڈرل ٹریژری میں 33 ارب روپے کے ٹیکس کو نہ تو کاٹا اور نہ ہی جمع کرایا۔

بہترین اوقات میں فرائض میں اس طرح کی کوتاہی کو ایک سنگین معاملہ سمجھا جائے گا،لیکن شدید معاشی مشکلات کے دور میں یہ واقعی ناقابل برداشت ہے۔

دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ صوبوں کی جانب سے ٹیکس چوری کرنے والوں میں وفاقی انکم ٹیکس بھی شامل ہے جو مختلف سرکاری محکموں سے تعلق رکھنے والے مختلف کیٹیگریز کے افسران کی تنخواہوں سے نہیں کاٹا جاتا۔

لاہور کی ایک پبلک سیکٹر یونیورسٹی کے معاملے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ادارے نے 2019-23 کے دوران اپنے ملازمین کی تنخواہوں سے حاصل ہونے والے 16 کروڑ 60 لاکھ روپے کے انکم ٹیکس کو روک لیا تھا لیکن اس رقم کو ایف بی آر کو بھیجنے کے بجائے یونیورسٹی آپریشنز کے انتظام پر خرچ کیا گیا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کو ان کی آمدن پر ٹیکس ادا کرنے سے استثنیٰ حاصل ہے۔ تاہم یہ استثنیٰ یقینی طور پر ان کے ملازمین کی تنخواہ کی آمدنی پر لاگو نہیں ہوتا ہے اور دیگر تمام تنخواہ دار افراد کی طرح وہ اپنی آمدن پر وفاقی انکم ٹیکس کے تابع ہیں.

مزید تفصیلات میں انکشاف ہوا ہے کہ پنجاب حکومت نے ایف بی آر کو 16.3 ارب روپے کے ٹیکسز کی کٹوتی کی اور نہ ہی جمع نہیں کرایا، سندھ کی جانب سے متعلقہ رقم 8.6 ارب روپے ہے، خیبر پختونخوا پر ٹیکس چوری کی مد میں 5.07 ارب روپے واجب الادا ہیں جبکہ بلوچستان کو 2.34 ارب روپے کی ادائیگی کرنی ہے۔

ان نتائج کے بعد اے جی پی آفس کی جانب سے اس مسئلے کو تمام صوبائی چیف سیکرٹریز کے سامنے رکھا گیا اور انہیں وفاقی ٹیکسز میں کٹوتی اور انہیں ایف بی آر میں جمع کرانے سے متعلق صوبوں کی اہم آئینی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرائی گئی ۔

یہ بظاہر بے اثر رہی ہیں، کیونکہ کوئی صوبائی اتھارٹی اپنی قانونی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرسکی ، کیونکہ متعلقہ ٹیکس کی کٹوتیاں نہیں کی گئی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ رقم خزانے میں بھی جمع نہیں کی گئی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے کی آزادانہ اور دور رس تحقیقات کی جائیں، اگر صوبائی حکومتوں کی جانب سے ٹیکس چوری کی تصدیق ہوتی ہے تو اسے فوری طور پر درست کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

اگر صوبے اپنی قانونی ذمہ داریاں ادا کرنے میں تاخیر جاری رکھتے ہیں تو وفاقی حکومت کو اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہیے اور وفاقی تقسیم شدہ پول میں سے صوبوں کے حصے سے متعلقہ رقم میں کٹوتی کرنی چاہیے۔

ایک طویل عرصے سے صوبائی حکومتیں ٹیکس محصولات بڑھانے کے نئے ذرائع متعارف کرانے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹ رہی ہیں اور اس کے بجائے وفاقی منتقلیوں پر انحصار جاری رکھنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔

ہم اس ناقابل قبول صورتحال کا سامنا کررہے ہیں جہاں صوبے بنیادی ذمہ داری یعنی وفاقی ٹیکسوں کو قومی خزانے میں جمع کرانے میں ناکام رہے ہیں۔

وفاقی حکومت کے پاس اتنے مالی وسائل یا مالی گنجائش نہیں ہے کہ وہ بنیادی قانونی ذمہ داری کو نظر انداز کرنے کو برداشت کر سکے۔

اگرچہ کوئی شخص نجی شعبے سے بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری سے متعلق کہانیوں کا عادی ہو چکا ہے ، لیکن سرکاری اداروں کو خود بھی اسی طرح کی کسی چیز میں ملوث دیکھنا واقعی شرمناک ہے ، خاص طور پر اس غیر معمولی ٹیکس بوجھ کو دیکھتے ہوئے جو قانون کی پاسداری کرنے والے شہریوں ، خاص طور پر تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد سے توقع کی جاتی ہے۔ تمام متعلقہ حکام کو اس گڑبڑ کو دور کرنے کے لئے فوری طور پر حرکت میں آنا چاہئے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف