آج کی دنیا میں، انٹرنیٹ کی دستیابی بجلی یا پانی کی طرح ضروری ہے۔ حیرت انگیز طور پر، یہ پاکستان میں چند خدمات میں سے ایک ہے جو ابھی تک نسبتاً سستی ہے، حالانکہ ملک بے مثال مہنگائی کا سامنا کر رہا ہے۔

تاہم، انٹرنیٹ تک بغیر کسی رکاوٹ کے رسائی دن بدن مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں (ٹیلی کام) انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے اور بینڈوڈتھ بڑھانے سے ہچکچاہٹ محسوس کر رہی ہیں، کیونکہ مالی مشکلات کا شکار حکومت سپیکٹرم کی نیلامیوں سے آمدنی پیدا کرنے پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔

ناقص سروس کے باوجود، انٹرنیٹ کا پھیلاؤ اور ریموٹ ورک، جس میں فری لانسنگ بھی شامل ہے، بڑھتا جا رہا ہے۔ تاہم، حکومت کی حالیہ کوششیں فائر وال لگانے اور سوشل میڈیا سائٹس پر پابندی عائد کرنے سے آن لائن ملازمتوں کی تخلیق اور پیداواریت میں ہونے والی ترقی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ یہ اقدامات ٹیلی کام کی آمدنی کو بھی متاثر کر رہے ہیں، سرمایہ کاری کو مزید روک رہے ہیں اور پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو داغدار کر رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتہ کنکٹویٹی کے لحاظ سے شاید بدترین تھا۔ ٹیک اور ٹیلی کام حلقوں میں افواہیں ہیں کہ حکام سوشل میڈیا پر بیانیے کو کنٹرول کرنے کے لیے فائر وال لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے آزادیٔ اظہار پر پابندی کے سماجی مضمرات کے ساتھ معاشی اثرات اس سے بھی زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں۔

ماہرین کو اس بات کا یقین طور پر پتا نہیں ہے کہ حکام کیا انسٹال کر رہے ہیں، لیکن نتائج واضح ہیں: بہت زیادہ تکلیف اورنہ ہونے کے برابر کنکٹویٹی۔ اگرچہ صورتحال ہفتے کے آخر میں بہتر ہوئی، لیکن ایک سوال اب بھی باقی ہے - کیا گزشتہ ہفتے کی انتہائی سست روی ایک وقتی خرابی تھی، یا یہ نیا معمول ہے؟ اگر ایسا ہے، تو پہلے سے خراب حال معیشت کے لیے اس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔

حکام بظاہر نقصان کی پرواہ کیے بغیر تجربہ کر رہے ہیں - جو کہ گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستان میں بار بار دہرایا جانے والا معاملا ہے، جہاں تجربات کیے جاتے ہیں لیکن ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا جاتا۔

سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی حالیہ کوششیں چند ماہ قبل ایکس ( ٹویٹر) پر پابندی سے شروع ہوئیں۔ ابتدا میں، حکومت میں سے کسی نے بھی، بشمول اُس وقت کے آئی ٹی وزیر نے پابندی کو تسلیم نہیں کیا، اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) خاموش رہی۔ لیکن، ستم ظریفی یہ ہے کہ سرکاری اہلکار وی پی اینز کا استعمال کرتے ہوئے ایکس تک رسائی جاری رکھے ہوئے ہیں، جو کہ تکنیکی طور پر پاکستان میں غیر قانونی ہیں جب تک کہ وہ رجسٹرڈ نہ ہوں۔

حکومت کے اقدامات واضح تضادات پر مبنی ہیں—سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرنا اور ساتھ ہی ان پابندیوں سے بچنے کا طریقہ بھی دکھانا۔ یہ ستم ظریفی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، لیکن اس نے ان لوگوں کو نہیں روکا جو یہ پابندیاں لگانے کے ذمہ دار ہیں۔

ہمیشہ کی طرح،اس طرح کی غیر اعلانیہ پابندیوں کا وسیع اثر ہو رہا ہے، جو سوشل میڈیا سے کہیں آگے تک پھیل رہا ہے۔ خاص طور پر فائیور جیسے آن لائن مارکیٹ پلیسز استعمال کرنے والے فری لانسرز متاثر ہو رہے ہیں۔ وی پی این کا استعمال ان کے رہائشی مقامات کو غیر مستقل ظاہر کرتا ہے، جس سے ان کے اکاؤنٹس مشکوک نظر آتے ہیں اور ان کی معطلی کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، وہ ملازمتیں کھو رہے ہیں—جو کہ ایک ایسے ملک میں ایک بڑا دھچکا ہے جہاں نوجوانوں میں بے روزگاری پہلے ہی زیادہ ہے۔

حال ہی میں فائر وال کی تنصیب نے انٹرنیٹ تک رسائی کو ہر سطح پر سست کر دیا ہے، جس سے فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام، گوگل، یوٹیوب اور ایکس جیسے پلیٹ فارمز متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ سست روی تمام معاشی طبقات میں پیداواریت کو کم کر رہی ہے، خاص طور پر نچلے طبقے کے افراد جو کاروباری مواصلات کے لیے وائس نوٹس پر انحصار کرتے ہیں۔

پیداواری صلاحیت کے اس اجتماعی نقصان کا مجموعی معاشی اثر حیران کن ہے۔ ٹیلی کام سیکٹر بھی اس دباؤ کو محسوس کر رہے ہیں۔ ان کی آمدنی کا 70 فیصد حصہ ڈیٹا سے آتا ہے، اور اس کا نصف میٹا اور الفابیٹ پلیٹ فارمز سے آتا ہے، پچھلے ہفتے کے 65 فیصد ٹریفک میں کمی کی وجہ سے ان کی آمدنی میں 30 فیصد کمی ہوئی۔ ایسی حالت میں کوئی ٹیلی کام انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کیوں کرے گا؟

فائر وال کے حامیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان اکیلا نہیں ہے—چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک بھی سوشل میڈیا پر پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ تاہم، یہ موازنہ درست نہیں ہے۔

مثال کے طور پر، چین نے مقامی متبادل تیار کیے ہیں جنہوں نے کاروباروں کو ترقی دی اور ایک ارب سے زائد کی آبادی کے درمیان پیداواریت کو بڑھایا۔ دوسری طرف، پاکستان اس ماڈل کو نقل نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں دیکھا جانے والا زیادہ تر کنٹنٹ بیرون ملک تیار کیا جاتا ہے، اور اس پر پابندی عائد کرنا انٹرنیٹ پر پابندی عائد کرنے کے مترادف ہے۔

اگر فائر وال لگانی ہی ہے تو اس کے کچھ اہداف ہونے چاہیے۔ وسیع پابندیاں صرف مزید صارفین کو وی پی اینز استعمال کرنے پر مجبور کرتی ہیں، جو مزید بینڈوڈتھ کا استعمال کرتے ہیں، اور پہلے سے محدود انٹرنیٹ کو مزید سست کر دیتے ہیں۔ اس کا براہ راست اثر لاکھوں گھریلو صارفین، لاکھوں فری لانسرز، ٹیلی کام، ذیلی کاروباروں اور بالآخر پاکستان کی عالمی ساکھ پر پڑتا ہے۔ ”مجموعی پیداواری نقصان ایک ارب ڈالر سالانہ سے تجاوز کر سکتا ہے اگر یہ انٹرنیٹ بلیک آؤٹس جاری رہے،“ ایک بڑے ٹیلی کام کے سی ای او نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا۔

حکومت نے پاکستان میں پے پال لانے، 5 جی کے نفاذ کو یقینی بنانے اور ملک کو اگلا آئی ٹی مرکز بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے بجائے، 4 جی کی دستیابی دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔

آئی ٹی برآمدات کو 15 بلین ڈالر تک بڑھانے کا عزم اب ایک دور کا خواب لگتا ہے، اب تو موجودہ 2 سے3 بلین ڈالر کو برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ حکومت کے اقدامات نہ صرف انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کر رہے ہیں— وہ نہ صرف مستقبل کی ترقی پر بلکہ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ایک ترقی پسند قوم کے خوابوں پر فائر وال لگا رہے ہیں جو اس کے نوجوان اب بھی دیکھ رہے ہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف