پاکستانیوں نے منظم طریقے سے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا اور دبئی کی جائیدادوں میں 11 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی، اب پاکستان سے امارات میں کاروباری سرمایہ کاری کا بہاؤ ہے اور ایسا خاص طور پر آئی ٹی کے شعبے میں ہے۔

دبئی چیمبر آف کامرس کی جانب سے رواں ہفتے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ کے عرصے میں 3 ہزار 968 پاکستانی کمپنیوں نے رجسٹریشن کروائی جو 2023 کے اسی عرصے (جنوری تا جون) کے 3 ہزار 395 کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ ہے۔

مجموعی طور پر سال 2023 کے دوران دبئی چیمبر آف کامرس میں 8,036 نئے پاکستانی کاروباری ادارے رجسٹرڈ ہوئے جو 2022 کے مقابلے میں 71.2 فیصد زیادہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 2022 کے بعد سے پاکستان سے دبئی میں کاروبار کی بے تحاشا منتقلی ہوئئی ہے۔

2024 کی پہلی ششماہی میں دبئی چیمبر آف کامرس میں شامل ہونے والی نئی غیر اماراتی کمپنیوں کی فہرست میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔

اس کے مقابلے میں 2024 کی پہلی ششماہی کے دوران 7860 نئی کمپنیوں کے ساتھ چیمبر میں شامل ہونے والی نئی غیر اماراتی کمپنیوں کی فہرست میں بھارتی سرمایہ کار سرفہرست رہے جبکہ برطانوی کمپنیوں کی تعداد 1245، چینی 742 اور بنگلہ دیشی کمپنیوں کی تعداد 1119 رہی۔

نتائج بیرون ملک سے براہ راست سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی دبئی کی مضبوط صلاحیت کو اجاگر کرتے ہیں۔

پاکستان کی سافٹ ویئر کمپنیوں کی پسندیدہ منزل کے طور پر دبئی کے مقابلے میں کوئی دوسری جگہ نہیں۔ یہ منزل ادائیگی کے عمل کو ہموار بنانے، سازگار کاروباری ماحول، قابل اعتماد بنیادی ڈھانچے اور معاہدوں کے بہتر نفاذ سمیت متعدد دیگر سہولیات فراہم کرتی ہے۔ یہ تمام عوامل، جو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہیں، ہمارے کاروباری افراد کو اپنے ملک میں دستیاب نہیں۔

پاکستان کی سافٹ ویئر کمپنیوں کی جانب سے جن اہم پرکشش عوامل کا حوالہ دیا گیا ہے وہ یہ ہیں:

نمبر:1 معاہدوں کے نفاذ میں متحدہ عرب امارات 190 میں سے نویں نمبر پر ہے۔ یہ ’قابل اعتماد اور سستی بجلی حاصل کرنے‘ کے پیمانے پر بھی پہلے نمبر پر ہے۔

غیر ملکی کمپنیاں صرف پاکستان میں قائم پاکستانی اداروں کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرنے سے گریز کرتی ہیں کیونکہ ایسا معاہدوں کے قانونی نفاذ کے بارے میں خدشات اور قانونی راستہ اختیار کرنے میں مبینہ دشواری کی وجہ سے ہے۔ کمپنیاں دبئی جیسے مقامات میں رجسٹرڈ اداروں کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرنے میں تحفظ محسوس کرتی ہیں کیونکہ معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں کارروائی آسان محسوس کی جاتی ہے۔

نمبر:2 بہت سے مواقع پر غیر ملکی کلائنٹز کو اپنے ملک میں خدمات فراہم کرنے والوں کا دورہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیکورٹی خدشات کی وجہ سے کئی ممالک کے شہریوں کیلئے پاکستان سے متعلق سفری ہدایات منفی ہے۔ تاہم دبئی کے معاملے میں کلائنٹ ملک سے مثبت ٹریول ایڈوائزری کی وجہ سے کاروباری ملاقاتوں کے لئے سفر کرنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔

نمبر:3 ماہرین کا خیال ہے کہ دبئی میں رجسٹریشن کرانا پاکستانی سافٹ ویئر کمپنیوں کو اسٹریٹجک فائدہ فراہم کرتی ہے، جس سے وہ مطلوبہ اور قابل اعتماد بنیادی ڈھانچے اور مناسب قانونی فریم ورک کے ساتھ ایک عالمی مرکز سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔

نمبر:4 دبئی میں رجسٹریشن سے پاکستانی کمپنیوں کو جو اہم فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ اسٹریپ اور پے پال تک بلا تعطل رسائی ہے جس سے صارفین سے ادائیگی کی وصولی میں سہولت ملتی ہے۔

اگرچہ کئی سالوں کے دوران متعدد وزراء کی جانب سے بار بار یقین دہانی وں کے باوجود پاکستان پے پال جیسی کمپنیوں کو راغب کرنے میں کامیابی کے بغیر جدوجہد کر رہا ہے۔ ادائیگی کے نظام تک رسائی نہ ہونے کی ایک وجہ ہے کہ کمپنیاں دبئی میں اپنے دفاتر رجسٹرڈ کرانا چاہتے ہیں۔

نمبر:5 دبئی میں کارپوریٹ ٹیکس 9 فیصد ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ادائیگی کی پروسیسنگ کی آسانی اس ٹیکس کو غیر اہم بنادیتی ہے۔

نمبر:6 پاکستان میں فرسودہ اے پی آئیز کی وجہ سے سروس فراہم کنندگان اور کلائنٹ کے سسٹم کے درمیان ویب سائٹ مربوط کرنا مشکل ہے۔ ان رکاؤٹوں کے سبب دبئی میں رجسٹریشن زیادہ آسان اور عملی ہوجاتی ہے جہاں ادائیگیوں کی وصولی کو ہموار کیا جاتا ہے۔ ویب سائٹ پر کریڈٹ کارڈ کے لین دین کو پراسیس کرنے کے لئے بین الاقوامی سیکورٹی معیارات پر پورا اترنا بہت ضروری ہے ، ایک ایسی ضرورت جو پاکستان میں آسانی سے پوری نہیں ہوتی ہے۔

دبئی میں کمپنیاں آسانی سے مرچنٹ اکاؤنٹ کو اپنی ویب سائٹ سے مربوط کرسکتے ہیں جس سے ان کے کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے بین الاقوامی گاہکوں کے لئے آسان ٹرانزیکشن ممکن ہوتی ہے۔

نمبر:7 بہت سی آئی ٹی کمپنیوں کا خیال ہے کہ پاکستان کا مالیاتی نظام بہت سختی سے ریگولیٹ کیا جاتا ہے - عالمی بینک کے ایز آف ڈوئنگ بزنس انڈیکس میں ’کریڈٹ حاصل کرنے‘ کے معاملے میں پاکستان 119 ویں نمبر پر ہے اور ٹیکس ادا کرنے کے معاملے میں 161 ویں نمبر پر ہے۔ انڈیکس پر بدترین اسکور 190 ہے۔

اس کے مقابلے میں متحدہ عرب امارات کا عالمی بینک کے ایز آف ڈوئنگ بزنس انڈیکس کے کسی بھی میٹرکس کے تین ہندسوں کے ایک بھی درجے میں نہیں۔ زیادہ سازگار ٹیکس نظام – آمدنی اور کارپوریٹ – نے بھی دنیا بھر سے سرمائے کو اپنی طرف راغب کیا ہے۔

نمبر:8 پاکستان سائن اپ کی پیچیدہ رسمی کارروائیاں اور وسیع دستاویزات کی ضروریات پیش کرتا ہے جو اس عمل کو طویل اور تھکا دینے والا بناتے ہیں۔

سرمایہ کاری بورڈ (بی او آئی) کی جانب سے 2018 میں تیار کردہ پاکستان وژن 2025 اور ڈیجیٹل پالیسی آف پاکستان 2018 میں آئی سی ٹی انڈسٹری کا حجم 2025 تک 20 ارب ڈالر تک پہنچنے کا ہدف رکھا گیا تھا۔

اقتصادی سروے 2023-24 کے مطابق پاکستان کی انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) نے مالی سال 2024 (جولائی تا مارچ) کے دوران 2.283 ارب ڈالر کی برآمدات ریکارڈ کیں جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران برآمدات 1.944 ارب ڈالر تھیں۔ یہ 2025 تک 20 ارب ڈالر کے ہدف سے بہت کم ہے۔

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ ملک میں اہداف بے بنیاد مفروضوں پر طے کیے جاتے ہیں جن کے پاس کوئی بامعنی روڈ میپ یا حکمت عملی نہیں ہے اور نہ ہی اسے حاصل کرنے کا ارادہ ہے۔

دبئی جو پیش کرتا ہے وہ صرف ایک کاروبار کے قابل اور پریشانی سے پاک ماحول ہے جس میں ایک بہتر منصوبہ بندی، بہترین اور منظم نظام ہے ، جو قابل عمل ہے اور پیشہ ور سرمایہ کاروں کو آرام اور کاروبار کرنے میں آسانی فراہم کرتا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں سب کچھ بدل دیتی ہیں۔

مذکورہ بالا بنیادی چیزیں فراہم نہ کر کے پاکستان اپنا ٹیلنٹ، ملکی اور غیر ملکی آمدنی اور آئی ٹی کے شعبے میں نام بنانے کا موقع کھو رہا ہے۔

موجودہ دور میں جب مقامی مارکیٹ سپلائی اور برآمدات کے لیے روایتی صنعت کاروبار جاری رکھنے کے لیے شدید دباؤ کا شکار ہے اور سرمایہ کاری بیرون ملک منتقل ہو رہی ہے تو آئی ٹی سیکٹر کو غیر ملکی چراگاہوں میں چھوڑنا ایک غلطی ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف