پاکستان کے توانائی شعبے کی مشکلات مختلف پہلوؤں پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے ایک ملک میں تیل وگیس کی پیداوار میں کمی ہے جس کی وجہ سے درآمدی ایندھن کے آپشنز پر ملک کا انحصار بڑھ رہا ہے۔ یہ یقینی طور پر ادائیگی کے توازن کی صورتحال کو مزید خراب کرے گا اور ممکنہ طور پر قیمتیں بھی بڑھ سکتی ہیں۔ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے منصوبہ یہ ہونا چاہیے کہ پٹرولیم پالیسی میں بہتری کے ذریعے مقامی پیداوار کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

نگران حکومت نے اس پر کچھ کام کیا اور تیل و گیس کی تلاش کیلئے 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا۔ فریم ورک میں ایک اہم ترمیم تیسرے فریق کو 35 فیصد گیس مختص کرنے کی اجازت دینا تھا۔ جنوری 2024 میں مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں اس کی منظوری دی گئی تھی۔

تاہم نئی حکومت کو اس پر تحفظات ہیں اور وہ تیسرے فریق کی مختص رقم کو پچھلے 10 فیصد پر واپس لانے پر غور کررہی ہے۔ یہ ایک رکاوٹ ہے جو سرمایہ کاری کے ممکنہ بہاؤ کو روکے گا۔

ای اینڈ پی (ایکسپلوریشن اور پروڈکشن) کمپنیاں مالی مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ پیداوار میں کمی اور بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں نے گزشتہ دہائی میں ان کی مالی حیثیت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں ۔ تیسرے فریق کی بڑی حصہ داری سرمایہ کاری کے امکانات کو بہتر بنائے گی۔

تاہم بادی النظر میں مجموعی مقامی رسد کی دستیابی پر تھرڈ پارٹی الاٹمنٹ میں اضافے پر خدشات ہوسکتے ہیں۔ وزارت پٹرولیم نے مختلف امکانات پر غور کیا ہے اور اس بات کے تجرباتی ثبوت موجود ہیں کہ تیسرے فریق کی بڑھتی الاٹمنٹ ممکنہ طور پر مقامی طلب اور رسد کے فرق کو بڑھا سکتی ہے۔

مثال کے طور پر ہمارے ملک کی مقامی گیس ہر سال تقریباً 8 فیصد کی شرح سے کم ہورہی ہے اور طلب میں اضافے کی شرح تقریباً 2 فیصد ہے۔

نظریاتی طور پر پیداوار میں مجموعی اضافہ محدود طلب میں اضافہ اور کمی، اور تیسرے فریق کی تقسیم سے زیادہ ہونا چاہئے۔ لہذا، جتنا زیادہ تیسرے فریق کی تخصیص ہوگی، نظام میں زیادہ گیس کے لیے نئی پیداوار میں زیادہ اضافہ ضروری ہوگا۔

مزید برآں یہ رائے فرض کرتی ہے کہ تیسرے فریق کا مطلب نئے صارفین ہیں۔ یہ مفروضہ درست نہیں ہے کیونکہ زیادہ امکان ہے کہ یہ موجودہ اور نئے داخل ہونے والوں کا امتزاج ہوگا جو پروڈیوسر کی صوابدید پر دستیاب فری فلوٹ کا فائدہ اٹھائیں گے۔

آئیے ان نظریاتی بحثوں میں نہ جائیں اور ایک سادہ سی حقیقت بیان کریں کہ مقامی پیداوار میں اضافہ ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔ آئیے اس پر توجہ مرکوز کریں اور پٹرولیم پالیسی میں تبدیلیوں کے ذریعے مقامی پیداوار کو بحال کریں۔

مسئلہ یہ ہے کہ عبوری حکومت میں موجود ماہرین آج اقتدار میں رہنے والوں سے مختلف سوچ رہے تھے۔ پالیسی پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ریفائنری پالیسی پہلے ہی پچھلے چار سال سے التوا کا شکار ہے اور ابھی تک مراعات کا تعین نہیں ہوا ہے۔ تین حکومتیں تبدیل ہو چکی ہیں اور اس دوران سعودی عرب کی طرف سے توجہ ایک نئی ریفائنری پر منتقل کردی گئی ہے۔

اب ہم مقامی ریفائنریوں کے ساتھ توسیع کے لیے مذاکرات کررہے ہیں۔ اس دوران تاخیر کی وجہ سے سالانہ نقصان 1 ارب سے 1.5 ارب ڈالر تک ہے۔

پالیسی کی مستقل مزاجی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ پالیسی سازی کو ادارہ جاتی بنایا جانا چاہیے اور یہ کسی ایک شخص یا ایک حکومت پر منحصر نہیں ہونی چاہیے۔ ذاتی مفادات یا انا کے ٹکراؤ منصوبے میں تاخیر یا رکاوٹیں پیدا کر سکتے ہیں۔

فیصلے کا نہ ہونا سب سے بدترین قسم کا فیصلہ ہے، جس کا نتیجہ بالآخر صارفین کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

اچھی خبر یہ ہے کہ پاور منسٹری میں کچھ اہم تبدیلیاں ہوئی ہیں اور امید ہے کہ 35 فیصد الاٹمنٹ شامل کی جائے گی، جس سے حکومت کو گیس اور تیل کی تلاش اور پیداوار میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں مدد ملے گی۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف