سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے اختیارات کی منتقلی، جس کی صدارت ڈاکٹر زرقا سہروردی تیمور کر رہی تھیں، نے وفاقی حکومت کے اخراجات میں کمی کے دعوؤں پر شک و شبہ کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر واقعی اخراجات کم کیے گئے ہیں تو وزارتوں اور ڈویژنوں کو اب تک منتقل ہو جانا چاہیے تھا۔

اگرچہ دیرینہ وزارتوں/ڈویژنوں کی منتقلی کو ایک حکم کے ذریعے لاگو نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ عمل شروع ہو جاتا ہے جیسے ہی حکم دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد عملے کو دوبارہ ترتیب دینا ہوتا ہے، صوبائی حکومتوں کو نئی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کی صلاحیت پیدا کرنی ہوتی ہے، اور اگر منصوبہ یہ ہے کہ منتقلی شدہ محکموں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلایا جائے تو پھر نجی شراکت دار کی شناخت کرنی ہوتی ہے اور شراکت داری کی حقیقی شرائط و ضوابط طے کرنے ہوتے ہیں،یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ حکومت کے فیصلوں کے پیچھے کے مقاصد کو چیلنج کرنے والوں کو عوام کی طرف سے سخت جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کمیٹی کے حدودِ کار 2010 میں لی گئی وزارتوں کی منتقلی کے فیصلے تک محدود تھے، جو فیصلہ 14 سال قبل لیا گیا تھا، جو 2008 سے اب تک کے تینوں سویلین حکومتوں - پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف - کے دوران سست روی کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم، اُمید کی جاتی ہے کہ اتحادیوں اور اپوزیشن کے اراکین کی توجہ موجودہ اخراجات کو کم کرنے پر مرکوز ہوگی، جو کہ پچھلے سال کے نظر ثانی شدہ تخمینے کے مقابلے میں اس سال کے لیے 21 فیصد بڑھا دیا گیا ہے۔

یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس غیر ترقیاتی اخراجات کے تمام وصول کنندگان/اہم اسٹیک ہولڈرز اپنے لئے مختص بجٹ میں خود ہی کٹوتی کریں۔

اس مد میں جو سب سے بڑا بجٹ مختص کیا گیا ہے،اس میں رواں سال 8.736 ٹریلین روپے کے قرضوں کی ادائیگی شامل ہے جس کی وجہ گزشتہ سال کے نظر ثانی شدہ تخمینوں کے مقابلے میں اندرونی قرضوں کی ادائیگی میں 21 فیصد کا متوقع اضافہ ہے اور اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس میں گزشتہ سال کے بجٹ کے مقابلے میں 36 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ گزشتہ سال بجٹ کے تحت ملکی قرضوں پر انحصار 12 فیصد زیادہ تھا اور اس کی جڑیں پنشن، دفاعی خدمات اور سویلین حکومت چلانے میں بجٹ سے زیادہ اضافے سے جڑی ہوئی ہیں، جن اشیاء کو رواں سال رضاکارانہ طور پر کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت کو سماجی شعبوں پر اخراجات بڑھانے کا موقع ملے۔ جس میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی شامل ہے تاکہ انتظامی اقدامات (یوٹیلیٹی پرائسز اور ٹیکسوں میں اضافہ) کے اثرات کو کم کیا جا سکے اور ساتھ ہی روپے کی ملکی اور بیرونی گراوٹ کو کم کیا جا سکے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت نے گزشتہ سال کے 2860 ارب روپے کے مقابلے میں رواں سال ملکی قرضوں سے 5142 ارب روپے حاصل کرنے کا تخمینہ لگایا ہے۔

بجٹ مختص کرنے کی رضاکارانہ قربانی کی اس تجویز کے پیچھے بنیادی بات یہ ہے کہ عوام کا معیار زندگی گرتا جا رہا ہے جس کی ایک وجہ رواں سال کے فنانس بل میں اضافی ٹیکس اقدامات کی وجہ سے آمدنی میں کمی ہے اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہے (انتظامی اقدامات کی وجہ سے جو حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ سے وعدہ کیا ہے جس میں یوٹیلیٹیز کے لئے مکمل لاگت کی وصولی کے ٹیرف کا تصور کیا گیا ہے)۔

بجٹ میں محصولات کی کمی کی صورت میں حکومت اضافی ٹیکس اقدامات کا سہارا لے سکتی ہے جس میں پیٹرولیم لیوی میں اضافہ کرکے اسکو زیادہ سے زیادہ 70 روپے فی لیٹر کرنا شامل ہے (حالانکہ اس وقت لیوی 60 روپے فی لیٹر ہے)۔

آخر میں یہ ضروری ہے کہ وفاقی حکومت عوامی سطح پر اخراجات میں کٹوتی کے اقدامات کرے جس سے نہ صرف عوام کے معیار زندگی پر فوری طور پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے بلکہ ملک کی پریشان حال مارکیٹوں کو بھی آسانی میسر ہوگی جو دوست ممالک کی جانب سے ایک سال کے بجائے سینتیس ماہ (آئی ایم ایف پروگرام کی مدت) کے لیے رول اوورز کے بارے میں غیر یقینی کا شکار ہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف