پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے سابق چیئرمین توقیرالحق نے کہا ہے کہ اگر سیکٹر کو غیر ملکی کرنسی کی مقررہ حد میں اضافے کی اجازت دی جائے تو اس سے پاکستان کی برآمدات بڑھانے میں مدد ملے گی۔ یہ بات انہوں نے ایک خصوصی انٹرویو میں کہی۔

پاکستان کی صرف 300 ملین ڈالر کے مقابلے میں ہمسایہ ملک بھارت کی فارماسیوٹیکل برآمدات 28 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، توقیر الحق نے اس شعبے میں اپنی عالمی موجودگی کو بڑھانےکیلئے پاکستان کیلئے وسیع مواقع پر زور دیا۔

چیئرمین توقیرالحق نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ پاکستان میں دواسازی کی برآمدات کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔

فی الحال پاکستان کی برآمدات تقریباً 300 ملین ڈالر ہیں۔ ہمارے پاس اپنی برآمدات بڑھانے کا بہت بڑا موقع ہے۔

چیلنجز

توقیرالحق نے غیر ملکی منڈیوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے وقت صنعت کو درپیش مختلف چیلنجز کا خاکہ پیش کیا۔ دیگر صنعتوں کے برعکس، فارماسوٹیکل مصنوعات کی برآمد ایک پیچیدہ اور مشکل عمل ہے۔ اس میں کسی مصنوعات کے مارکیٹ تک پہنچنے سے پہلے ریگولیشن ، معائنہ اور منظوری شامل ہے۔

سابق چیئرمین پی پی ایم اے نے وضاحت کی کہ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ یہ ایک بہت ہی تھکا دینے والا عمل ہے۔ سب سے پہلے، آپ کو درخواست دینی ہوگی، پھر ملک کی ریگولیٹری ٹیم آپ کے پلانٹ کا معائنہ کرنے کے لئے آتی ہے کہ آیا یہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے یا نہیں۔ پھر آپ کو ایک ڈوزیئر جمع کرانا ہوگا اور اس کے بعد مصنوعات رجسٹرڈ ہو جائے گی تاہم اس کے بعد ایک برانڈ قائم کرنا ہوگا۔

توقیرالحق نے اس بات پر زور دیا کہ صرف دوائیں تیار کرنا کافی نہیں ہے۔ صنعت کو بین الاقوامی مارکیٹنگ اور برانڈ اسٹیبلشمنٹ کی پیچیدگیوں سے بھی نمٹنا ہوگا جس کے لئے تقسیم ، پے رول ، مارکیٹنگ اور مشاورتی خدمات میں اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس بیرون ملک ایک ڈسٹری بیوٹر ہونا ضروری ہے، ساتھ ہی ایک ٹیم اور ایک پے رول کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک برانڈ قائم کرنا پڑتا ہے، مارکیٹنگ کرنی ہوتی ہے اورکنسلٹنٹس کو بھی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔

کرنسی برقرار رکھنا: ایک بڑی رکاوٹ

توقیرالحق کے مطابق سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک فارماسیوٹیکل برآمدات سے حاصل شدہ زرمبادلہ کی آمدنی کو برقرار رکھنے کی حد ہے۔۔

اس وقت پاکستانی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو اپنی برآمدی آمدنی کا صرف 15 فیصد اپنے پاس رکھنے کی اجازت ہے جس کی وجہ سے بیرون ملک مارکیٹنگ اور تنخواہوں سے وابستہ اخراجات کو پورا کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

سابق چیئرمین پی پی ایم کے مطابق سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک فارماسیوٹیکل برآمدات سے حاصل شدہ غیر ملکی زرِمبادلہ کی آمدنی کو رکھنے پر لگائی گئی پابندی ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ حکومت نے آئی ٹی سیکٹر کو اپنی برآمدی وصولیوں کا 35 فیصد برقرار رکھنے کی اجازت دی ہے اور تجویز دی کہ فارماسیوٹیکل انڈسٹری کو بھی اسی طرح کی سہولت فراہم کی جائے۔

اگر ہم اپنے ہمسایہ ملک بھارت کو دیکھیں تو فارماسیوٹیکل سیکٹر اپنی برآمدی وصولیوں کا تقریبا 50 فیصد برقرار رکھ سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم برآمدات بڑھانے سے قاصر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت زرمبادلہ کی آمدنی میں کم از کم 35 فیصد تک اضافہ کرتی ہے تو ہم فوری طور پر موجودہ برآمدات میں اضافہ کرسکتے ہیں جس طرح آئی ٹی سیکٹر کو ایسا کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

باہمی تعاون کا نقطہ نظر

توقیرالحق کا خیال ہے کہ اگر یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو دوا سازی کی صنعت تین سے چار سال میں برآمدات میں 10 گنا اضافہ کرسکتی ہے، جو ممکنہ طور پر 3 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے اس مقصد کے حصول کیلئے حکومت، صنعت اور ریگولیٹری اداروں کے درمیان تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت سے بات کی ہے اور میرا ماننا ہے کہ صنعت اور حکومت کو تعاون کرنا ہوگا اور برآمدات پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم برآمدات میں نمایاں اضافہ کرسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کے ساتھ دو سال کی بات چیت کے باوجود، کوئی ٹھوس حل نہیں نکلا ہے۔ اس کے باوجود وہ پرامید ہیں۔

انہوں نے بھارت کی فارماسیوٹیکل ایکسپورٹ پروموشن کونسل (فارمیکسل) کی طرح ایک کمیٹی کی ضرورت پر روشنی ڈالی، جس میں صنعت، وزارت تجارت اور ریگولیٹری اتھارٹیز کے نمائندے شامل ہوں۔ اس طرح کی کمیٹی اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) قائم کرسکتی ہے اور اس شعبے میں درپیش چیلنجز اور مواقع سے نمٹ سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم ایک صفحے پر اکٹھے ہو سکتے ہیں تو یقینی طور پر فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے پاس برآمدات بڑھانے کا بہت بڑا موقع موجود ہے۔

نئی منڈیوں کی تلاش

برآمدات بڑھانے کے لئےتوقیرالحق نے تجویز دی کہ کم محنت والے مواقع پر توجہ مرکوز کی جائے، جس کی شروعات دولت مشترکہ آزاد ریاستوں (سی آئی ایس)، مشرق بعید اور افریقہ کی منڈیوں سے کی جائے۔ پاکستانی کمپنیاں ویتنام اور فلپائن جیسے ممالک میں پہلے ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں، افریقی ممالک میں جہاں مارکیٹ میں داخلے نسبتا آسان ہیں وہاں نمایاں امکانات موجود ہیں۔

تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ حکومت کو ان علاقوں میں بینکنگ چینلز سے متعلق مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لین دین کے عمل کو آسان بنایا جاسکے ۔

انہوں نے کہا کہ سی آئی ایس اور افریقی ممالک کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں بینکنگ چینلز کو بہتر بنانا ہوگا۔ حکومت، وزارت تجارت اور دفترخارجہ کو ان مسائل کو حل کرنے کیلئے ہمارے ساتھ بیٹھنا چاہئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حقیقت میں ان چیلنجز پر قابو پا کر اور حکومت اور فارماسیوٹیکل صنعت کے درمیان تعاون کو بڑھا کر پاکستان اہم برآمدی صلاحیت کو کھول سکتا ہے اور زیادہ برآمدی معیشت کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف