پاکستان

سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے، جسٹس منصور شاہ

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونا آئین کی خلاف...
شائع August 11, 2024

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی ہے۔

ہفتے کے روز عدالتی چیلنجز پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مستقبل کے چیف جسٹس نے کہا کہ صرف سپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی معاملے کا فیصلہ کرے اور اس کے بعد اس فیصلے پر عمل ہونا چاہیے۔ اگر سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کے آئینی فریضے کو پورا نہ کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

جسٹس منصور نے کہا کہ سپریم کورٹ کا اختیار براہ راست آئین سے آتا ہے، کسی اور ذریعے سے نہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پاسداری صرف ایک روایت نہیں بلکہ ایک آئینی حکم ہے اور کہا کہ فیصلوں کو نظرانداز یا تاخیر سے نافذ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”سپریم کورٹ کے فیصلے کو نظرانداز یا تاخیر سے نافذ نہیں کیا جا سکتا ورنہ پورا قانونی نظام درہم برہم ہو جائے گا اور آئین کا توازن بگڑ جائے گا اگر آپ فیصلوں کے عدم نفاذ کی کوشش کریں گے“۔

”میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے ہمیشہ نافذ ہوتے ہیں اور یہ آئین کی ساخت ہے،“ جسٹس منصور نے مزید کہا کہ آج تک کوئی ایسا کیس نہیں ہوا جہاں سپریم کورٹ کا فیصلہ نافذ نہ کیا گیا ہو۔

سینئر جج نے کہا کہ فیصلوں کا نفاذ آئین کی ساخت ہے، کیونکہ اعلیٰ عدالت کو معاملات کے فیصلے کا اختیار آئین سے حاصل ہوتا ہے، جو ملک کا سپریم قانون ہے۔

”کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو ’غلط‘ یا ’درست نہ‘ کہے۔ آئین کہتا ہے کہ یہ ایک فیصلہ ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے،“ انہوں نے کہا۔

جسٹس منصور نے کہا کہ جنہیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر کوئی اعتراض ہو، وہ پورے آئین کے ڈھانچے کو تبدیل کر سکتے ہیں، ”لیکن ابھی کے لیے یہ ہے کہ اس پر عمل کرنا ضروری ہے“۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نظراندازی ”اختیارات کی تقسیم کے خلاف“ ہے۔

“اختیارات کی تقسیم جمہوریت کا مرکزی جزو ہے جسے متاثر نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ کوئی بوجھ یا مہربانی نہیں ہے جسے آپ کو کرنا ہے، بلکہ ایک آئینی فرض ہے جسے پورا کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک نازک توازن ہے جسے احترام دیا جانا چاہیے۔ ہمیں یہ توازن برقرار رکھنے کی ذمہ داری ہے اور کوئی انتظامی تجاوز نہیں ہونا چاہیے۔ کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ فیصلے کو صحیح یا غلط سمجھنے کا اختیار رکھے۔

اس تقریب میں، جو عدالتی فیصلوں کے نفاذ اور ان کے چیلنجز پر مرکوز تھی، جسٹس شاہ نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر بھی بات کی۔

سینئر جج نے کہا کہ پاکستان کا آئین تمام شہریوں کو برابر کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے، جن میں اقلیتیں بھی شامل ہیں، اور سپریم کورٹ ان حقوق کو برقرار رکھنے کو یقینی بنائے گی۔

جسٹس منصور نے زور دیا کہ آئین اقلیتوں کے لیے مضبوط تحفظ فراہم کرتا ہے، جو پاکستان کے برداشت اور برابری کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔

انہوں نے قرآنی اصولوں اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کا حوالہ دیا جو مذہبی آزادیوں اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی حمایت کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا آئین مساوات اور سماجی انصاف کے قیام کے لیے بنایا گیا ہے، جو اسلامی اصولوں کے مطابق ہے۔

جسٹس منصور نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے ساتھی اور دوست ہیں اور عدالتی نظام کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے آئینی ہدایات کی پیروی کی اہمیت پر زور دیا۔

اپنے خطاب کے اختتام پر، جسٹس منصور نے اس بات کو دہرایا کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ پاکستان کے آئین کا ایک بنیادی پہلو ہے، جو اسلامی تعلیمات اور قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات سے ہم آہنگ ہے۔

Comments

200 حروف