ایک جادوئی لمحے میں ارشد ندیم نے پوری قوم کا سر خوشیوں اور فخر سے بلند کردیا ۔ انہوں نے اپنی جیولن کی دوسری باری میں 92.97 میٹرکی طویل تھرو کرکے نہ صرف پہلی پوزیشن اپنے نام کی بلکہ سال 2008 کے بیجنگ اولمپکس میں آندریاس تھرکیڈسن کے 90.57 میٹر کے ریکارڈ کو بھی پیچھے چھوڑدیا۔

دفاعی چیمپئن اور شائقین کے پسندیدہ بھارت کے نیرج چوپڑا نے 89.45 میٹر کے ساتھ اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور دوسرے نمبر پر رہے۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ ارشد کی 92.97 کی تھرو اتفاقیہ ہے تو فائنل راؤند میں انہوں نے 91.97 کی تھرو کرکے اپنے آپ کو ایک بار پھر ثابت کردیا۔ ان کی تاریخی کامیابی کے بعد یہ انفرادی مقابلوں میں پاکستان کا پہلا گولڈ میڈل ہے اور 1984 کے بعد ملک کے لئے پہلا گولڈ میڈل ہے جو ہاکی ٹیم نے جیتا تھا۔

ارشد ندیم نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ اولمپک گولڈ جیتنا ایک حیرت انگیز احساس ہے۔ میں اللہ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے میری محنت کا پھل دیا اور ان تمام لوگوں کا بھی جنہوں نے میرے لیے دعائیں کیں ۔ میں آئندہ اس سے بھی بہتر کرنے کی کوشش کروں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا تمغہ ملک کیلئے یوم آزادی کا تحفہ ہے۔ یقیناً اس سے بہتر کوئی تحفہ نہیں ہوسکتا ہے۔

وہ پہلی بار ہندوستان میں سال 2016 کے ساؤتھ ایشین گیمز میں سرخیوں میں آئے تھے جہاں انہوں نے 78.33 میٹر پر اپنا جیولن پھینکا اور کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ ٹوکیو میں گزشتہ اولمپکس میں جہاں ان کے اہم حریف چوپڑا نے سونے کا تمغہ جیتا تھا ، وہ انجیریز کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہے تھے۔ تاہم اس سے وہ مایوس نہیں ہوئے ۔

انہوں نے جلد ہی اپنی محنت اور اپنے کوچ سلمان بٹ پر بھروسہ کرتے ہوئے کئی اعزازات اپنے نام کیے ۔ انہوں نے سونے کا تمغہ جیتتے ہوئے کریڈٹ دیا اور کہا کہ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ میں مزید مضبوط اور بہتر طریقے سے واپس آؤں۔ دوسرے ممالک کے ایتھلیٹس کے برعکس جن کے پاس بہترین تربیت تھی ارشد کو حکومت یا متعلقہ کھیلوں کے اداروں کی طرف سے شاید ہی کوئی مدد ملی جب انہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سال 2022 کے کامن ویلتھ گیمز میں انہوں نے 90.18 میٹر پر جیولن تھرو کر کے طلائی تمغہ جیتا تھا۔ سال 2023 میں انہوں نے بوڈاپیسٹ میں ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں ایک اور طلائی تمغہ اپنے نام کیا۔ لیکن اس سال کے اوائل میں جب انہوں نے اپنے تقریبا 8 سالہ جیولن کو تبدیل کرنے کی درخواست کی تو سرکاری حلقوں نے ان کی درخواست پر خاموشی اختیار کرلی جب تک کہ چوپڑا نے مدد کے لئے ایک ٹویٹ کے ساتھ مداخلت نہیں کی۔

یہی وہ وقت تھا جب ارشد ندیم کو ایک نیا جولین ملا ، بعدازاں ان کو تین ہفتوں کی تربیت کیلئے جنوبی افریقہ بھیج دیا گیا ، جس نے بالآخر ارشد کو پیرس میں بہترین پوزیشن میں کھڑا کردیا اب جبکہ انہوں نے اکیلے ہی قوم کی امیدوں اور امنگوں کو پورا کیا ہے، بہت سے لوگ ان کو اون کرنا چاہتے ہیں ۔

اب وقت آ گیا ہے کہ مختلف کھیلوں کے بورڈز اور فیڈریشنز میں سرکاری عہدوں کے لیے لڑنے کے بجائے، ہمارا کھیلوں کا نظام مختلف شعبوں میں ابھرتی ہوئی صلاحیتوں کی مہارتوں کو بہتر بنانے پر توجہ دے جن کی کوئی کمی نہیں ہے۔ایسے بہت سے نوجوان ہیں جو غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہیں، خاص طور پر معاشرے کے کم تر سماجی طبقات میں، جن کی صلاحیتیں وسائل، رہنمائی، اور تربیتی سہولتوں کی کمی کی وجہ سے غیر استعمال شدہ رہتی ہیں۔

یہی وہ جگہ ہے جہاں سے ہمارے ذہین ترین اسٹار ارشد ندیم کے ساتھ ساتھ بہت سے بہترین کرکٹرز اور ہاکی کھلاڑیوں سمیت کچھ دیگر لوگ آتے ہیں۔اگر صرف مناسب فنڈز اور مناسب تربیتی سہولیات کو آسانی سے قابل رسائی بنایا جائے تو بہت سے ستارے اٹھ سکتے ہیں اور ہم بار بار فخر کر سکتے ہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف