گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مالیات اور محصولات کو جس کی صدارت پاکستان پیپلزپارٹی کے نوید قمر کررہے تھے، وضاحت کی کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے 29 جولائی 2024 کو شرح سود 19.5 فیصد مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ شرح مہنگائی کی 11.1 فیصد اور بنیادی مہنگائی کی 11.7 فیصد سے نمایاں فرق رکھتی ہے۔ اس فیصلے کی بنیاد مستقبل کے رجحانات، متعلقہ خطرات کے اثرات، بیرونی کھاتے کی کمزوریاں اور بین الاقوامی وعدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے رکھی گئی تھی۔

یہ ایک اہم مشاہدہ ہے کیونکہ پچھلے ماہ کے مانیٹری پالیسی بیان میں کہا گیا تھا کہ کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ رواں سال جون 2024 کی مہنگائی کی شرح توقع سے تھوڑی بہتر تھی (جولائی میں مہنگائی جون کے مقابلے میں 1.5 فیصد کم تھی جبکہ بنیادی مہنگائی 0.5 فیصد کم تھی)، بیرونی کھاتے میں بہتری جاری ہے، جس کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ قرضوں اور دیگر واجبات کی بڑی ادائیگی کے باوجود اسٹیٹ بینک کے غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ان تمام پیش رفت اور نمایاں طور پر مثبت شرح سود کو مدنظر رکھتے ہوئے کمیٹی نے دیکھا کہ پالیسی ریٹ کو مزید 100 بیسس پوائنٹس تک کم کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

یہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کے فیصلے کے نقادوں کے مطابق نجی شعبے کے لیے کافی پرکشش نہیں ہوگا جس کے نتیجے میں قومی پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے حکومتی قرضوں کی ادائیگی کی لاگت میں بھی اضافہ ہوگا۔ حکومت رواں سال مقامی قرضوں میں 80 فیصد اضافے کی توقع کررہی ہے جو گزشتہ سال کے بجٹ میں طے شدہ رقم سے زیادہ ہے تاکہ موجودہ سال کے بجٹ میں 21 فیصد اضافے والے اخراجات کو پورا کیا جا سکے۔

گورنر کی جانب سے حالیہ مالیاتی اقدامات (فنانس ایکٹ 2024) کے اثرات، توانائی قیمتوں میں اضافہ، مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال جو تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کا باعث بن سکتی ہے اور بین الاقوامی معاہدوں (خاص طور پر 12 جولائی 2024 کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ساتھ طے پانے والے 7 ارب ڈالر کے 37 ماہ طویل ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی پروگرام کی شرائط) کے حوالے سے دی گئی وارننگ بجا ہے۔

جمیل احمد نے کمیٹی کے ارکان کو یہ بھی بتایا کہ رواں سال مجموعی طور پر بیرونی ادائیگیوں کیلئے 26.2 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جس میں سے 12.3 ارب ڈالر رول اوور ہیں جن کی تصدیق وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کی ہے حالانکہ باضابطہ اعلان زیر التوا ہے، 4 ارب ڈالر دو طرفہ ہیں، جو ادائیگی کے بعد ملک میں واپس آئیں گے ، گزشتہ ماہ جولائی میں 1.4ارب ڈالر کی ادائیگی کی جاچکی ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ بقیہ 8.5 ارب ڈالر اس سال ادا کرنے ہوں گے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران تجارتی خسارہ 24.1 ارب ڈالر تھا جبکہ ترسیلات زر کی آمد 30 ارب ڈالر تھی جو غیرملکی زرمبادلہ کمانے کے مطلوبہ ذرائع ہیں جس کا مطلب بیرونی قرضوں میں نمایاں اضافے کے باوجود غیر ملکی قرض دہندگان کو ادائیگیوں کے ساتھ خالص اخراج ہے۔

رواں سال جولائی میں تجارتی خسارہ بڑھ کر 1.948 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو گزشتہ سال جولائی میں 1.627 ارب ڈالر تھا ، اگرچہ ترسیلات زر کی آمد گزشتہ سال کی سطح پر برقرار رہی لیکن اگر یہ رجحان جاری رہا تو زرمبادلہ کی خالص اخراج جاری رہے گا۔

لہذا قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت کثیر الجہتی اور دوست ممالک سے رعایتی شرائط پر قرض لینے پر منحصر ہے بلکہ تجارتی قرضوں پر بھی منحصر ہے جن کا سود بہت زیادہ رہ سکتا ہے کیونکہ ملک کی کریڈٹ ریٹنگ حال ہی میں سی سی سی + تک بڑھا دی گئی تھی ، جسے حکومت نے ایک کامیابی کے طور پر سراہا تھا ، حالانکہ ریٹنگ ایجنسی فچ نے نوٹ کیا کہ وہ “منتقلی اور تبدیلی کے خطرے کو عملی جامہ پہنانے کی صورت میں صرف سی سی سی + کی کنٹری حد مقرر کرتی ہے اور یہ معیشت کے وسیع تر شعبوں اور اثاثہ جات پر اثر انداز ہو رہا ہو۔

یہ خوفناک پیشن گوئی ملک میں مایوسی پھیلانے کیلئے نہیں کی گئی بلکہ اقتصادی منتظمین پر زور دینے کیلئے کی گئی ہے کہ وہ اپنے بجٹ کے موجودہ اخراجات میں بڑے پیمانے پر اور فوری کمی کا مطالبہ کریں کیونکہ صرف یہی چیز حکومت کی اندرون اور بیرون ملک قرض لینے کی ضرورت کو کم کرسکتی ہے، ایک ایسی کمی جس کا افراط زر پر زیادہ مثبت اثر پڑے گا جو دیگر علاقائی ممالک کے مقابلے میں پریشان کن حد تک زیادہ ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف