اداریہ

حکومت کو کمر کسنے کی ضرورت

حکومت رواں ماہ کفایت شعاری کے اقدامات پر عملٓدرآمد شروع کرنے کے لیے قانون سازی کا عمل شروع کرے گی جو وزیراعظم شہباز...
شائع August 7, 2024

حکومت رواں ماہ کفایت شعاری کے اقدامات پر عملدرآمد شروع کرنے کے لیے قانون سازی کا عمل شروع کرے گی جو وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر قائم کردہ کمیٹیوں کی جانب سے تشکیل دیا گیا ہے۔(i) سال 2010 میں تفویض کی گئی مختلف ریگولیٹری کونسلوں کی تحلیل،جیسے کہ تعلیم اور صحت، حالانکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ صوبوں کی جانب سے مناسب اخراجات کیے جائیں گے۔ تاہم، وفاقی یونیورسٹیوں اور اسپتالوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) موڈ کے تحت نجی شعبے میں کارپوریٹ بورڈز کے ذریعہ چلایا جائے گا۔ (ii)وفاقی یونیورسٹیوں اور اسپتالوں میں عملے کی تقرری پر مکمل پابندی اور گریڈ 1 سے 16 تک کی بھرتیوں پر اس وقت تک پابندی جب تک کہ کوئی عہدہ خالی نہ ہو جائے؛ اور(iii) وزارتوں اور ڈویژنز کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت ختم کر دی جائے گی، حالانکہ افسوس کے ساتھ، مونیٹائزیشن کا دائرہ کار وسیع کر دیا جائے گا جس سے اعلیٰ سطح کے افراد نہ صرف بھاری ٹرانسپورٹ الاؤنس لیں گے بلکہ سرکاری ٹرانسپورٹ بھی استعمال کریں گے۔

14 سال سے زیر التوا اس اقدام کے لئے وفاقی حکومت کی مکمل حمایت کی جانی چاہئے، یہ ایک ایسا زیر التواء اقدام جس کی وجہ سے قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑرہا ہے ، اب یہ نقصان موجودہ اقتصادی بحران میں ناقابل برداشت ہے۔

تاہم، پانچ مشاہدات انتہائی اہم ہیں۔ سب سے پہلی اور اہم بات یہ کہ یہ عمل آسان نہیں ہو گا کیونکہ اس میں عملے کی کافی تعداد کی منتقلی شامل ہے جو کہ ماضی کی نظیروں کے مطابق ہڑتال کو جنم دے سکتی ہے۔۔

جماعت اسلامی کی جانب سے غریب اور کمزور طبقات کے علاوہ نچلے اور درمیانی آمدنی والے گروپوں کی کم ہوتی آمدنیوں کے خلاف جاری احتجاج کے پیش نظر، کم آمدنی والے افراد اب اپنے کچن کے بجٹ کے علاوہ کوئی بھی خرچ برداشت کرنے سے قاصر ہیں، یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ موجودہ اخراجات میں کمی کرکے خاص طور پر قرض دہندگان کے ذریعے مالیاتی بل 2024 میں تنخواہ دار طبقے پر عائد کردہ ٹیکسز کو ملتوی کرکے فوری فائدہ حاصل کیا جائے۔

رواں مالی سال کے بجٹ میں، حیران کن طور پر، موجودہ اخراجات میں 21 فیصد کا اضافہ کیا گیا جو سال کے لئے متوقع افراط زر کی شرح 11.85 فیصد سے زیادہ ہے۔

یہاں تک کہ اگر کوئی رواں سال کے لئے عالمی مالیاتی فنڈ کے تخمینے کے مطابق 12.7 فیصد کی بلند شرح کو بھی لے تو موجودہ اخراجات میں 21 فیصد اضافے کا کوئی معاشی جواز نہیں ہے۔ اس کے لیے کم از کم رواں سال کے لیے سویلین انتظامیہ سمیت موجودہ اخراجات کے بڑے وصول کنندگان کی رضاکارانہ قربانی کی ضرورت ہوگی۔

دوسرا صوبوں کو منتقل کردہ محکموں کی منتقلی، جو ابھی تک ان کو چلانے کی صلاحیت کا اظہار نہیں کرسکے ہیں، اس بات کی وضاحت کرسکتی ہے کہ اسپتالوں اور یونیورسٹیوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کے تحت کارپوریٹ بورڈز کے ذریعے چلانے کی تجویز دی گئی ہے۔

تاہم، اس صورت میں بھی عوام شاید اس اضافی فیس کو برداشت نہ کر سکیں جو کہ کارپوریٹ بورڈز سے منسلک ہو گی، جس کے نتیجے میں اس ملک میں پہلے سے ہی خراب تعلیم اور صحت کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہوں گے.

تیسرا، منیٹائزیشن کا غلط استعمال کیا جاتا رہا ہے اور جاری ہے، اور شاید اب وقت آگیا ہے کہ حکومت ہاؤسنگ، ٹرانسپورٹ اور دیگر فوائد کی فراہمی کو روک دے، بشمول کابینہ کے ارکان اور ان افراد کے لیے جو مختلف اداروں/سروسز میں کام کررہے ہیں کیلئے استعمال شدہ یوٹیلیٹیز کی ایک حد جو کہ ٹیکس دہندگان کے اخراجات پر ادا کی جاتی ہے کو ختم کردیا جائے۔اس کے علاوہ معیشت کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کابینہ ارکان اور قومی اسمبلی کے ارکان کے لیے مناسب ہوگا کہ اگر ان کی آمدن قابل ٹیکس رقم سے زیادہ ہو تو وہ ایک سال تک تنخواہیں نہ لیں۔

چوتھا یہ کہ موٹروے پولیس کارکردگی کے لحاظ سے اچھی ساکھ رکھتی ہے لیکن نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا۔یہ سچ ہے کہ ن لیگ کا بڑی سڑکوں کے منصوبوں سے تعلق ہے، لیکن یہ امید کی جا سکتی ہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کو صوبوں کے حوالے کر دیا جاتا تاکہ اس کی جوابدہی میں اضافہ ہو۔

اور آخر میں رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت سوشل سیکٹر افیئرز ڈویژن قائم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ یہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کی کوششوں کی نقل ہوگی، جسے مضبوط کرنے اور اس کے دائرہ کار کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ اس میں تمام سبسڈیز شامل کی جائیں جو کسی متوازی ریاستی تنظیم کے بجائے بہتر طرح سے قائم میکانزم کے ذریعے فراہم کی جائیں گی۔

اگرچہ کمیٹیوں کی جانب سے ٹھوس سفارشات پیش کرنے کی کوششوں کو سراہا جانا چاہیے، لیکن موجودہ معاشی تعطل کے پیش نظر، یہ فوری طور پر اتنی اہمیت نہیں رکھتا کہ اسے عام لوگوں کی طرف سے پذیرائی مل سکے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف