تازہ ترین گیلپ پاکستان بزنس کانفیڈنس انڈیکس رپورٹ صرف اس بات کی تصدیق کرتی ہے جو ہر کوئی پہلے سے جانتا ہے: ”مسلسل سیاسی بحران اور نئے ٹیکس بھاری بجٹ“ کے زہریلے مرکب کی وجہ سے کاروبار کے مالکان مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔

سال 2024 کی دوسری سہ ماہی میں 30 سے زائد اضلاع کے 454 چھوٹے، درمیانے اور بڑے کاروباری اداروں سے کیے گئے سروے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک بڑی اکثریت فطری طور پر یہ سمجھتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت والی موجودہ حکومت اپنے پیشرو کے مقابلے میں معیشت کی ”بدتر مینیجر“ ہے۔

اس طرح کی چیزیں موجودہ حکومتوں کے لئے ڈراؤنے خواب کی طرح ہیں۔ سیاسی جماعتیں فطری طور پر اقتدار میں آنے پر مقبول فیصلے لینا پسند کرتی ہیں۔ لیکن اس خاص مخلوط حکومت کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ جب اس نے ملک کی تاریخ کے سب سے متنازع انتخابات میں سے ایک کے بعد اقتدار حاصل کرنے کے لیے سخت جدوجہد کی تو وہ کیا کر رہی تھی۔ اور اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ معیشت کو ٹھیک کرنے کے لئے جو کچھ بھی کرنا پڑے گا وہ کرے گی، اور یہ کہ اس کو پتا تھا کہ اس عمل میں دھچکا لگے گا۔

یہ پھر بھی صرف ایک لحاظ سے درست رہا ہے اور وہ ہے اس سارے عمل میں دھچکا لگنے کا اندازہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے عوام اور تاجروں کے غصے کو جنم دیا ہے، لیکن مسلم لیگ (ن) طویل عرصے سے اقتدار کی راہداریوں میں رہی ہے اور اس طرح کے غیر منصفانہ بجٹ سے اس طرح کے رد عمل کی توقع کر سکتی ہے۔

تاہم، اس نے اس بات پر بھی غور نہیں کیا ہے کہ معیشت ٹھیک کرنے کے لئے اصل میں کیا ضروری ہے۔ اس نے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ کیلئے درکار سخت ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل درآمد شروع نہیں کیا ہے۔ اس نے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور آمدنی میں اضافہ کرنے کے لئے بھی وہ کچھ نہیں کیا ہے جس سے آئی ایم ایف کی جانب سے سخت ”اپ فرنٹ“ شرائط کو نرم کرنے کے لئے ضروری مالی گنجائش پیدا ہوتی۔

اور اس نے یقینی طور پر اپنے اخراجات کا جائزہ لینے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ درحقیقت جب زیادہ تر پاکستانی اپنی تاریخ کی بدترین مہنگائی، بے روزگاری اور ٹیکسوں کے بوجھ کا سامنا کر رہے ہیں تو ریاست نے خود کو اور اپنے ملازمین کو زیادہ تنخواہوں اور زیادہ مراعات دینے کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا ہے جیسے متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کے زخموں پر نمک چھڑکا جائے جو اس فضول خرچی کو سہارا دینے اور آئی ایم ایف کی لائف لائن کو زندہ رکھنے کے لیے اضافی بوجھ برداشت کررہے ہیں۔

کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ کاروباری اداروں کو سرنگ کے اختتام پر کوئی روشنی نظر نہیں آرہی ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ اس بجٹ سے پہلے بھی زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ بلند یوٹیلیٹی اخراجات اور بھاری ٹیکسوں نے پہلے ہی ان میں سے بہت سے کو مفلوج اور برآمد کنندگان کوعالمی منڈیوں میں غیر مسابقتی بنا دیا ہے۔ اب انہیں مزید ٹیکس اور ٹیرف کے تحت مزید رقم ادا کرنی ہوگی کیونکہ حکومت اپنی زیادتیوں میں کمی نہیں کرے گی اور نہ ہی زیادہ آمدنی والے شعبوں پر ٹیکس لگائے گی جو سیاسی طور پر اس سے منسلک ہیں۔

یہ واضح ہے کہ اس حکومت نے یا تو مالی بحران کی سنگینی کو نہیں سمجھا یا اس کو اپنی بات کامطلب ہی پتا نہیں تھا جب اس نے ”جو کچھ بھی کرنا پڑا کرینگے“ کا وعدہ کیا تھا۔ کیونکہ یہ پرانے زمانے کی طرح نہیں ہے، جب حکومتیں غیر منصفانہ پالیسیوں کو لوگوں اور کاروباری اداروں پر مسلط کردیتی تھیں اور ایک ہی دائرے میں گھومتی رہتی تھیں۔ اب عوام بریکنگ پوائنٹ پر پہنچ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے اب بھی اپنے یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ وہ کیسے زندہ رہیں گے جب ای ایف ایف (توسیعی فنڈ سہولت) کی شرائط اس بوجھ کو مزید 40 سے50 فیصد بڑھا دیتی ہیں۔

کیا حکومت کے پاس بڑے پیمانے پر کاروبار کی بندش کے بعد کا کوئی ہنگامی منصوبہ ہے، اگر ان کے طے شدہ اخراجات میں اضافہ ہوتا رہا، اور اس کے نتیجے میں بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوتا رہا تو کیا ہوگا؟ ان سوالات کے فوری جوابات کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود ایسا نہیں لگتا کہ ایک ایسی حکومت جو اب بھی خزانے سے اپنا بھاری حصہ لینے میں مصروف ہے، اس نے اتنی دور تک سوچا ہوگا۔ لہذا اس بات کا بہت زیادہ امکان نہیں ہے کہ اگلا گیلپ سروے کوئی بہتر نتائج لائے گا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف