اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے گزشتہ ہفتےمالی سال 24-2023 کے بیرونی ادائیگیوں کے توازن کے اعداد و شمار جاری کیے گئے ۔ یہ اعداد و شمار کرنٹ اور فنانشل اکاؤنٹس دونوں میں بیرونی لین دین کے حوالے سے پاکستان کی نازک پوزیشن کو ظاہر کرتے ہیں۔

یقینا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے کم حجم کی بہت تعریف کی گئی ہے۔ یہ 11-2010 کے بعد سب سے کم ہے، جب اصل میں بہت معمولی سا سرپلس تھا۔ سال کا اختتام صرف 681 ملین ڈالر خسارے کے ساتھ ہوا جو جی ڈی پی کے 0.2 فیصد کے برابر بھی نہیں ہے۔

یہ یقینی طور پر جشن منانے کی ایک وجہ ہوتی اگر یہ برآمدات/ ترسیلات زر میں زبردست اضافے سے حاصل کیا جاتا ۔ تاہم اشیاء اور خدمات کی برآمدات میں معتدل 9.6 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اگر چاول کی برآمدات میں تقریباً 75 فیصد اضافے کو چھوڑ دیا جائے تو دیگر تمام برآمدات نے مجموعی طور پر صرف 5 فیصد کی شرح نمو حاصل کی ہے۔ درحقیقت ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 2 فیصد سے زائد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

کارکنوں کی ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے اور شرح نمو 11 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن اس اضافے کی بڑی وجہ گزشتہ سال ترسیلات زر میں بڑی کمی ہے۔ مالی سال 23-2022 کے دوران اوپن مارکیٹ اورڈالر کی سرکاری قیمت کے درمیان وسیع فرق کی وجہ سے ترسیلات زر کا ایک بڑا رخ ہنڈی مارکیٹ کی طرف موڑا گیا تھا۔

اس کے نتیجے میں بینکوں کو موصول ہونے والی ترسیلات زر میں مالی سال 22-2021 کی سطح کے مقابلے میں 12 فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مالی سال 24-2023 میں ترسیلات زر میں صرف جزوی ریکوری ہوئی ہے۔ وہ اب بھی 22-2021 کی سطح سے 3 فیصد سے زیادہ نیچے ہیں۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے کی اصل وجہ اشیا کی درآمدات میں بڑی کٹوتی ہے۔ وہ عملی طور پر 23-2022 کی سطح پر ہیں، جب درآمدات کو محدود کرنے کے لئے مضبوط فزیکل کنٹرول موجود تھے۔ اس کے نتیجے میں درآمدات میں 26 فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی تھی۔

یہ عمل شاید مالی سال 24-2023 میں بھی اسی شدت کے ساتھ جاری رہا ہے، ٹرانسپورٹ گاڑیوں، معدنی مصنوعات، برقی آلات، ادویات وغیرہ کی درآمدات میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی گئی ہے۔ اس نے مینوفیکچرنگ سیکٹر کی ترقی کی شرح کو محدود کردیا ہے اوراشیا کی قلت کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

حتمی نتیجہ ایک ہے، جو توقعات کے برعکس ہے. روپیہ ایک ایسے وقت میں نمایاں طور پر مستحکم رہا ہے جب پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر نسبتا کم سطح پر ہیں۔ مانیں یا نہ مانیں، روپے کی حقیقی موثر شرح تبادلہ 100 کے قریب ہے۔ مالی سال 24-2023 کے آغاز میں یہ 87 تک گر گیا تھا۔ یقینا اس کامیابی کا سہرا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو جاتا ہے۔

اپریل 2024 تک آئی ایم ایف کی اسٹینڈ بائی سہولت کے دور میں آئی ایم ایف اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ ایکسچینج ریٹ مارکیٹ پر مبنی ہونا چاہیے۔ اسٹیٹ بینک اس دباؤ کے باوجود روپے کی حقیقی قدر میں کمی سے بچنے میں کامیاب رہا۔ سوال یہ ہے کہ روپے کی قدر میں اضافے کا برآمدات پر کیا اثر پڑا؟

ادائیگیوں کے توازن کے مالیاتی کھاتے پر نظر ڈالیں تو خوش قسمتی سے مالی سال 23-2022 میں 468 ملین ڈالر کے خسارے کے مقابلے میں 4,701 ملین ڈالر کا بڑا سرپلس رہا۔ تاہم غیر ملکی سرمایہ کاری کی خالص آمد صرف 1,600 ملین ڈالر زیادہ ہے. ایس آئی ایف سی (خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل) کی جرات مندانہ کوششوں سے ابھی تک غیر ملکی سرمایہ کاری کے بہاؤ میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔

نسبتاً بڑی بہتری سرکاری کھاتے میں خالص بہاؤ میں آئی ہے۔ درحقیقت ادائیگیاں 23-2022 کی سطح سے بھی 1,295 ملین ڈالر کم رہی ہے۔ ایمورٹائزیشن ادائیگیوں میں بڑی کمی سے خالص آمد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ مالی سال 23-2022 میں 11,660 ملین ڈالر سے کم ہو کر مالی سال 24-2023 میں 6,735 ملین ڈالر رہ گیا ہے۔

بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں بڑے پیمانے پر کمی کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔ وزارت خزانہ نے مالی سال 24-2023 کے بجٹ دستاویزات میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا تخمینہ 9,165 ملین ڈالر لگایا تھا جو رول اوور تھے۔ اسی طرح آئی ایم ایف کی جانب سے اسٹینڈ بائی سہولت کے آغاز پر مالی سال 24-2023 میں 10,488 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔

تاہم مالی سلا 24-2023 میں 6,735 ملین ڈالر کے ساتھ اصل ایمورٹائزیشن بہت کم رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ 23-2022 میں اصل کل ایمورٹائزیشن ادائیگی سے 4،925 ملین ڈالر کم ہے. بنیادی سوال یہ ہے کہ قرضوں کی ادائیگی میں کمی کی یہ مقدار کیسے حاصل کی گئی ہے؟ کیا سال کے آغاز میں توقعات سے کہیں زیادہ رول اوور ہوئے ہیں؟

خلاصہ یہ ہے کہ گزشتہ مالی سال ادائیگیوں کے توازن میں 2,816 ملین ڈالر کا سرپلس حاصل کیا گیا ہے جب کہ مالی سال 23-2022 میں 4،218 ملین ڈالر کا بڑا خسارہ ہوا تھا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے 2,154 ملین ڈالر کی خالص آمد کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر میں مجموعی طور پر 5,016 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔

تاہم، ادائیگیوں کے توازن کی بنیادی کمزوری کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے.

سرپلس درآمدات میں ایک بڑی کٹوتی اور ایمورٹائزیشن ادائیگیوں میں بڑی کمی کے ذریعہ حاصل کیا گیا تھا۔

آئی ایم ایف پروگرام کی موجودگی کے نتیجے میں آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر اور سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر کی اضافی آمد ہوئی۔

رواں مالی سال 25-2024 کے لئے آئوٹ لک کیا ہے؟ آئی ایم ایف اسٹاف رپورٹ 10 مئی 2024 کو اسٹینڈ بائی سہولت کے اختتام پر جاری کی گئی ہے جس میں 25-2024 کے لیے مجموعی بیرونی مالیاتی ضروریات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا تخمینہ 4,554 ملین ڈالر لگایا گیا ہے جو جی ڈی پی کے 1.5 فیصد سے بھی کم ہے لیکن مالی سال 24-2023 کی اصل سطح سے تقریبا 4 ارب ڈالر زیادہ ہے۔

رواں مالی سال بیرونی سرکاری قرضوں کی ادائیگیوں کا تخمینہ 11,234 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ فنانسنگ میں یورو/ سکوک بانڈز کی مشترکہ فلوٹیشن اور عالمی کمرشل بینکوں سے 6,500 ملین ڈالر کے نئے قرضے شامل ہیں۔ یہ بڑی رقم متوقع ہے حالانکہ 24-2023 میں ان نجی قرض دہندگان کی طرف سے کوئی آمد نہیں ہوئی تھی۔

واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ 37 ماہ کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کا انتظار ہے۔ اس وقت وزیر خزانہ کا چین کا جاری دورہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان کو شاید چینی حکومت، عالمی بینکوں اور چینی آئی پی پیز کو ادائیگیوں کی کچھ ری پروفائلنگ حاصل کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔

ہم آئی ایم ایف کے ساتھ نئے ای ایف ایف کو حتمی شکل دینے کے منتظر ہیں۔ یہ کارکردگی کے معیار اور ساختی بینچ مارکس کے لحاظ سے شاید اب تک کا سب سے مشکل پروگرام ہونے کا چیلنچ پیش کرتا ہے۔ 25-2024 کے وفاقی بجٹ میں پہلے ہی اضافی ٹیکسوں کی سب سے بھاری مقدار شامل کی جاچکی ہے۔

حال ہی میں بجلی کے نرخوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے رواں مالی سال روپے کی قدر میں 16 فیصد کمی کا تخمینہ لگایا ہے جس سے افراط زر کے دباؤ میں بھی اضافہ ہوگا۔ مجموعی طور پر25-2024 ایک اہم سال ہونے کا وعدہ کرتا ہے.

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف