وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی اتوار کی پریس کانفرنس اس پریشان حال ملکی مارکیٹ کا اعتماد بڑھانے کی ایک دانشمندانہ کوشش تھی کہ حکومت تین دوست ممالک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ کامیابی کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے تاکہ تین سال ایک ماہ طویل (37 ماہ) توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کی مدت کے لئے موجودہ 12 ارب ڈالر کے قرضوں کو رول اوور کیا جاسکے۔ سی پیک کے قرضوں کی ادائیگی میں کچھ سہولت حاصل کی جاسکے۔

12 جولائی کو آئی ایم ایف کی پریس ریلیز میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ، جیسا کہ اس سے قبل ای ایف ایف میں جولائی 2019 میں کہا گیا تھا ، “پاکستان کی ترقی اور دوطرفہ شراکت داروں کی طرف سے مضبوط مالی مدد جاری رکھنا پروگرام کے مقاصد کے حصول کے لئے اہم ہوگا۔ اگرچہ بزنس ریکارڈر نے ہمیشہ پریشان کن غیر مستحکم خسارے پر قابو پانے کے لئے ٹیکسوں میں اضافے کے بجائے سرکاری اخراجات میں کمی کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ بجٹ 25-2024 کے لئے یہ آپشن زیر غور نہیں تھا کیونکہ موجودہ اخراجات میں 20 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا گیا جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 سے 25 فیصد اضافہ بھی شامل ہے۔

تاہم 12 ارب ڈالر کے رول اوور کی مدت کو ایک سال سے بڑھا کر تین سال کرنے کی درخواست کا امکان ہے لیکن بجٹ 25-2024 کی دستاویزات میں 2.457 ارب ڈالر (کل حکومتی گارنٹی کا 70 فیصد) کے واجب الادا پاور سیکٹر کے قرض کے طور پر چینی انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے بڑے قرضوں کی ادائیگی میں کسی تبدیلی کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا۔

12 جولائی 2024 کو آئی ایم ایف کی پریس ریلیز جس میں عملے کی سطح کے معاہدے کی نشاندہی کی گئی ہے، اس میں توانائی کے نرخوں کی بروقت ایڈجسٹمنٹ، لاگت میں کمی لانے میں فیصلہ کن اصلاحات اور پیداواری صلاحیت میں مزید غیر ضروری توسیع سے گریز کے ذریعے توانائی کے شعبے کی افادیت کو بحال کرنے اور مالی خطرات کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ (i)ریونیو پر مبنی لوڈ شیڈنگ کے ذریعے بجلی کی چوری کا خاتمہ۔ (ii) ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری اس مفروضے پر کہ کارکردگی خود بخود بڑھ جائے گی۔ اور (iii) شمسی اور ہوا سے سستی توانائی کو فروغ دینا جو بلا شبہ زیادہ ٹیرف کی وجہ ہے کیونکہ موجودہ پیداواری صلاحیت طلب سے کہیں زیادہ ہے جسےغیر ملکی زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے جان بوجھ کر کم ایندھن کی درآمدات کے ذریعے کم کیا جارہا ہے(معاہدے میں لینے یا ادائیگی کی شرط کی وجہ سے قطر سے آر ایل این جی کو چھوڑ کر) حالانکہ اس کے نتیجے میں آئی پی پیز کے ساتھ طے شدہ کیپیسٹی کی ادائیگی میں اضافہ ہوا ہے۔

وزیر توانائی نے واضح طور پر اس بات کو مسترد کیا کہ نواز شریف کی زیر قیادت حکومت کے دور میں آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے کسی بھی معاہدے کی خلاف ورزی کی جائے گی کیونکہ یہ نہ صرف مستقبل میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے بہاؤ کو روکنے کا کام کرے گا بلکہ چین کو بھی ناراض کرے گا جس نے باہمی طور پر طے شدہ نرخوں پر نیک نیتی سے آئی پی پیز قائم کیے ہیں۔

اگرچہ توانائی کے شعبے کے حوالے سے حکومت واضح طور پر آگے کنواں پیچھے کھائی کے درمیان پھنسی ہے لیکن بجلی کے شعبے کے حوالے سے اب تک کوئی واضح سوچ سامنے نہیں آئی ہے۔ ریونیو پر مبنی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے تشویش کا ایک بڑا سبب ان فیڈرز پر بجلی چوری کی کل قیمت کے خام اعداد و شمار کا فقدان ہے ،جس کی وصولی معاشرے کے غریب طبقوں سے کی جاتی ہے، جہاں وصولیاں بہت زیادہ ہیں ان لوگوں کے مقابلے میں جن علاقوں کی طرف سے ادائیگی نہیں کی جاتی ہے۔ جہاں بااثر لوگ آباد ہیں،پھر چاہے وہ صنعتی، رہائشی یا تجارتی علاقے ہوں۔

ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کو حتمی حل کے طور پر دیکھنے کا سب سے بڑا مسئلہ بلاجواز برابری کی ٹیرف پالیسی ہے جس میں ڈسکوز کو ہر سال بڑے پیمانے پر سبسڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور آخر میں، اگرچہ قابل تجدید توانائی آگے بڑھنے کا راستہ ہے لیکن جب تک آئی پی پی معاہدے مدت پوری نہیں کرتے تو اسے مؤخر کرنا پڑے گا کیونکہ جو لوگ شمسی اور ہوا سے توانائی بنانے کے نظام قائم کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ ان لوگوں کے لئے ٹیرف (گنجائش کی ادائیگی کے تحت) میں مزید اضافے کا سبب بن رہے ہیں جو ان اخراجات کوبرداشت نہیں کرسکتے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ مارکیٹ کی بے چینی میں کسی حد تک کمی آئی ہو، حالانکہ حوالے کے طور پر پیش کی جانے والی اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی نے کبھی بھی متوسط آمدنی کمانے والوں یا غریبوں کی قسمت کی عکاسی نہیں کی ہے اور اس میں محدود تعداد میں لوگ شامل ہیں جو اسٹاک اور حصص کا کاروبار کرتے ہیں - یہ تنازع اس ملک میں اسٹاک مارکیٹ سے جمع ہونے والے کم ٹیکسوں کی وجہ سے ہے۔ تاہم، ملک بھر میں زیادہ ٹیکسوں، مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے خلاف مظاہروں میں اضافہ ہو رہا ہے – کچھ خود ساختہ ہیں جبکہ کچھ کی قیادت واضح طور پر سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔

حکومت اور خاص طور پر وزیر خزانہ کے لئے سب سے بڑا چیلنج عام لوگوں میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی اور غصہ ہے جس کی وجہ روپے کی گراوٹ اور روزگار کے کم مواقع ہیں، جو غربت کی سطح کو موجودہ 41 فیصد سے بھی زیادہ بڑھا رہے ہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف