مانیٹری پالیسی کا اعلان پیر کو کیا جائے گا جس میں مارکیٹ کو شرح سود میں 150 بیسس پوائنٹس (بی پی ایس) کی نمایاں کمی کی توقع ہے۔ بڑھتے سیاسی شور کے باوجود یہ توقع سیکنڈری مارکیٹ کے منافع اور اسٹاک مارکیٹ میں تیزی سے ظاہر ہوتی ہے۔

ابتدائی طور پر یہ خدشہ تھا کہ مالی سال 25 کے بجٹ میں نئے ٹیکس متعارف کرائے جانے کے بعد افراط زر میں دوبارہ اضافہ ہوسکتا ہے تاہم جولائی کا کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) تقریبا 11 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو افراط زر میں توقع سے زیادہ تیزی سے کمی کی نشاندہی کرتا ہے جو پچھلے 150 بی پی ایس کی کمی کے بعد شرح سود میں ایک اور کٹوتی کی حمایت کرتا ہے ۔ رواں مالی سال کے لئے افراط زر کا تخمینہ 11 سے 13 فیصد تک لگایا گیا ہے جب کہ موجودہ پالیسی ریٹ 20.5 فیصد ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیز کٹوتی کی ضرورت ہوسکتی ہے ۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) 150 بی پی ایس کی کمی کی مخالفت نہیں کرے گا۔

مالی سال 25 کے دوران مالیاتی پالیسی اختصار پذیر رہی ہے، جس میں متعدد نئے اور اضافی براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسز کا نفاذ کیا گیا ہے جس کا مقصد قابل استعمال آمدن کو کم کرکے طلب کو کم کرنا ہے ۔ توقع ہے کہ ریونیو میں کمی کو ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کرکے پورا کیا جائے گا تاکہ 2 فیصد ہدف کے قریب پرائمری سرپلس حاصل کیا جاسکے ۔ نچلے اور متوسط شہری طبقے کے لئے مجموعی طور پر قابل استعمال آمدنی سکڑ رہی ہے ، جبکہ دیہی آمدنی گندم کی کم قیمت اور خراب موسمی حالات کی وجہ سے فصل کی پیداوار ، خاص طور پر کپاس میں ممکنہ کمی سے متاثر ہوئی ہے۔ نتیجتا، دیہی طلب میں بھی کمی کی توقع ہے۔

موجودہ افراط زر کے آئوٹ لک اور مالیاتی پالیسی کو دیکھتے ہوئے شرح سود میں تیزی سے کٹوتی ناگزیر معلوم ہوتی ہے۔ تاہم، میکرو اکنامک استحکام کی کمزوری، خاص طور پر بیرونی اکاؤنٹ کے بارے میں، پر غور کیا جانا چاہئے۔کسی بھی طرح کی گراوٹ کرنسی کی قدر میں کمی کا باعث بن سکتی ہےجس سے ممکنہ طور پر افراط زر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے زرمبادلہ ذخائرمیں اضافہ جاری رکھنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ اجناس کی عالمی قیمتوں کے جھٹکے یا داخلی سیاسی عدم استحکام کے خلاف اہم بفر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

مثبت خبر یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے ذخائر جون 2023 میں 3.5 ارب ڈالر کی کم ترین سطح سے بڑھ کر جولائی 2024 میں 9.4 ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔ اگرچہ یہ حوصلہ افزا ہے، لیکن ذخائر کی سطح اب بھی اسٹیٹ بینک کی ترقی کو تیز کرنے کی سوچ پر عمل کیلئے ناکافی ہے ۔ مزید ذخائربڑھانے پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے ، جس کے لئے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو راغب کرنے اور سرکاری اور نجی دونوں شعبوں سے بیرونی تجارتی قرضے حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس وقت پاکستان میں طویل مدتی سرمایہ کاری بہت کم ہے لیکن قلیل مدتی پورٹ فولیو سرمایہ کاری زیادہ پرکشش ہوتی جا رہی ہے۔ایک ممکنہ راستہ ٹریژری بلوں میں ہاٹ منی کی آمد ہے جس میں حال ہی میں کچھ معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کو ان سرمایہ کاریوں کو زیادہ سے زیادہ راغب کرنے کے طریقے تلاش کرنے چاہئیں، حقیقی شرح سود میں اضافہ سب سے مؤثر حکمت عملی ہوسکتی ہے۔

اہم سوال یہ ہے کہ بیرونی کھاتوں کے استحکام کو برقرار رکھنے کے ساتھ ذخائر بڑھانے کے لئے حقیقی شرح سود کتنا مثبت ہونے کی ضرورت ہے ۔ جیسا کہ ماہر معاشیات ملٹن فریڈمین نے ایک بار کہا تھا کہ ہمیشہ اور ہر جگہ افراط زر کی وجہ مالیاتی بہائو ہے، جو محتاط مانیٹری پالیسی مینجمنٹ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے ۔ مانیٹری پالیسی کمیٹی کو عالمی شرح سود کے رجحانات پر بھی غور کرنا چاہئے اور محتاط نقطہ نظر اختیار کرنا چاہئے ، اس سے پیر کو شرح سود میں 50 سے 100 بی پی ایس کی کٹوتی کا اشارہ ملتا ہے ، جس میں اعداد و شمار کی بنیاد پر مزید بتدریج کمی کی گئی ہے۔

Comments

200 حروف