بھارت سولر پینل اور بیٹری مینوفیکچرنگ جیسے غیر حساس شعبوں میں چینی سرمایہ کاری پر عائد پابندیوں میں نرمی کر سکتا ہے کیوں کہ ان شعبوں میں نئی دہلی کے پاس مہارت کی کمی ہے جس کی وجہ سے مقامی تیاریوں میں رکاوٹ کا سامنا ہے۔

ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت چینی سرمایہ کاری کے لیے ان شعبوں کو پابندیوں سے پاک کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جنہیں وہ سیکورٹی کے نقطہ نظر سے کم حساس سمجھتی ہے۔

یہ منصوبے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو بہتر بنانے کی جانب پہلا قدم ہے، یہ تعلقات 2020 میں ہمالیہ کی دور دراز سرحد پر جھڑپوں کے بعد خراب ہوئے تھے جس کے بعد بھارت نے چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کی جانچ پڑتال سخت کردی تھی۔

ایک اور عہدیدار نے کہا کہ غیر اہم شعبوں کا فیصلہ کیس ٹو کیس کی بنیاد پر کیا جائے گا لیکن الیکٹرانکس اور ٹیلی کام میں چینی سرمایہ کاری پر پابندیاں برقرار رہیں گی۔

وزیر اعظم کے دفتر، خارجہ، خزانہ، داخلہ اور تجارت کی وزارتوں نے تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران اعلیٰ حکومتی حکام چینی سرمایہ کاری کے خلاف اپنے موقف کا جائزہ لینے کے لیے تیار ہیں کیونکہ غیر ملکی سرمایہ کاری 17 سال کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے۔

وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کی جانب سے چین کے ساتھ بہتر اقتصادی تعلقات کی حمایت مودی حکومت میں کابینہ کے کسی اعلیٰ وزیر کی جانب سے اس طرح کا پہلا عوامی تبصرہ ہے۔

پیر کے روز چیف اکنامک ایڈوائزر وی اننت ناگیشورن نے کہا کہ نئی دہلی ہندوستان کی برآمدات کو فروغ دینے کے لئے چین سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دے سکتا ہے۔

اگر ان منصوبوں کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ بیجنگ سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے قوی امکانات پیدا ہوسکتے ہیں جسے بھارت نے گزشتہ چار سالوں میں روک دیا تھا۔

بھارت نے 2020 کے بعد سے چینی شہریوں کو ویزے کا اجرا بھی عملی طور پر روک دیا ہے لیکن چینی تکنیکی ماہرین کے لئے ان پابندیوں میں نرمی ہوسکتی ہے کیونکہ اس اقدام سے سرمایہ کاری میں رکاوٹ آئی ہے۔

Comments

200 حروف