ملکی معیشت کے لیے ایک اور حوصلہ شکن خبر میں،پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن نے اعلان کیا ہے کہ رواں سیزن کے دوران کپاس کی پیداوار گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں تقریبا آدھی رہ گئی ہے۔

ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 15 جولائی تک جننگ فیکٹریوں کو 4 لاکھ 42 ہزار گانٹھوں کی پھٹی یا خام کپاس فراہم کرائی گئی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران جننگ یونٹس میں لائی جانے والی 8 لاکھ 58 ہزار گانٹھوں کے مقابلے میں 48.48 فیصد کم ہے۔

اگرچہ اس مایوس کن کارکردگی کو بڑی حد تک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے منسوب کیا جا رہا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ شعبہ زیادہ گہرے ، بنیادی مسائل سے دوچار ہے ، جن کو اگر تیزی سے حل نہیں کیا گیا تو معیشت کے ایک اہم حصے پر منفی اثرات مرتب ہوتے رہیں گے جو روزگار ، صنعتی پیداوار اور برآمدات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اگرچہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے پالیسیوں کی بہت ضرورت ہے لیکن جب تک زیادہ پیچیدہ مسائل کو حل نہیں کیا جاتا کپاس کی فصل کی پیداوار میں کمی کا رجحان جاری رہے گا۔

ملک میں کپاس کی کاشت میں دو اہم مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے : مشین کاری کا فقدان اور ناقص معیار کے بیجوں کا استعمال ۔ کپاس کی کھیتی کو متاثر کرنے والے دیگر مسائل کے علاوہ ان دو بنیادی عوامل کے نتیجے میں فی ہیکٹر کم پیداوار کے ساتھ ساتھ خراب معیار کی فصل بھی پیدا ہورہی ہے۔

مشینی کاری کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ کپاس کی چنائی بڑی حد تک ایک دستی کوشش رہی ہے جو فصل کو آلودہ ہونے کے خطرات سے محفوظ نہیں رکھتی ، جس کے نتیجے میں کپاس کی فصل کا معیارغیر تسلی بخش ہوتا ہے۔

اس سے روئی اور کپاس سے متعلق مصنوعات کی برآمد پر براہ راست نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بیرون ملک ٹیکسٹائل سیکٹر کی مارکیٹ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس کے نتیجے میں ایک ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے جہاں ٹیکسٹائل انڈسٹری مقامی فصل پر انحصار کرنے کے بجائے بہتر معیار کی خام کپاس درآمد کرنے پر مجبور ہوگئی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ وہ عالمی مارکیٹ میں اپنا حصہ اور مقام برقرار رکھے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ ٹیکسٹائل ملوں نے اس سال مقامی خام کپاس کی خریداری میں کمی کردی ہے۔

مزید برآں ماہرین کے مطابق، پاکستان میں زیادہ تر کاشت کیے جانے والے کپاس کے بیج، یعنی جینیاتی طور پر ترمیم شدہ بی ٹی کپاس جو گزشتہ برسوں کے دوران کیڑوں کے خلاف مزاحمت کا معیار کھو چکے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بی ٹی جینز کو مسلسل بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ بیج کیڑوں کے حملوں کے خلاف مزاحمت رکھتا ہے۔ پاکستان میں زرعی تکنیک پر ناقص تحقیق اور بیج کے معیار کو بہتر بنانے میں ناکامی کی وجہ سے کپاس کی فصل کے معیار پر سمجھوتہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں پیداوار میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

اس سب کے نتیجے میں کسانوں کی جانب سے زیادہ منافع والے گنے جیسے متبادل کا انتخاب کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے، جو اگرچہ قلیل مدتی منافع کے لئے اچھا ہے، لیکن اس کے ملک کے زرعی شعبے پر کئی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، گنے کی فصل کے ساتھ ہماری محبت نے زراعت کے شعبے کے خدوخال کو تبدیل کردیا ہے جو پانی کی کمی کے شکار ملک میں بڑے پیمانے پر پانی استعمال کرتا ہے۔

چینی کی صنعت کو سیاسی اشرافیہ کی سرپرستی حاصل ہے، جس نے اسے سازگار پالیسیاں حاصل کرنے کے قابل بنایا ہے،جس نے کپاس کی کاشت کی پہلے سے ہی خراب حالت کو مزید خراب کرنے کا کام کیا ہے۔

ایسی پالیسیاں جو گنے کی کاشت کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں اور اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ بہتر معیار کی کپاس کی کاشت میں اضافہ ہو اور بہتر معیار کے بیجوں کا استعمال ضروری ہو۔

تحقیق اور ترقی کے پروگرام جن کا مقصد کپاس کی کاشت میں استعمال ہونے والے بیج کی قسم کو بہتر بنانا اور کاشتکاروں کو کاشتکاری کی جدید تکنیک اور آلات کے بارے میں تعلیم دینا وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔

ایک ایسی فصل جو زرعی جی ڈی پی میں 10 فیصد حصہ ڈالتی ہے، اور لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے علاوہ ہماری نصف سے زیادہ زرمبادلہ آمدنی کا ذریعہ ہے، اس کیلئے درکار ہر طرح کے اقدامات کرنا ضروری ہیں۔

Comments

200 حروف