بنگلہ دیش میں پیر کو کرفیو کے باوجود امن و امان کی صورتحال برقرار رہی لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے سرکاری ملازمتوں کے لیے کچھ کوٹہ ختم کیے جانے کے ایک دن بعد بھی ٹیلی کام سروسز متاثر رہیں۔

ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کو بحال کیا تھا جس کے بعد مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم 139 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

تاہم اتوار کو سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ 93 فیصد سرکاری ملازمتیں میرٹ کی بنیاد پر مختص کی جائیں جبکہ اس سے قبل 56 فیصد کوٹہ فریڈم فائٹرز کے اہل خانہ، خواتین اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے مختص کیا جاتا تھا۔

پیر کی صبح تشدد یا احتجاج کی کوئی اطلاع نہیں ملی ۔ میڈیا کا کہنا ہے کہ دوپہر میں 3 گھنٹے کے لئے کرفیو میں نرمی کی جائے گی تاکہ لوگ ضروری اشیاء خرید سکیں۔

طلبہ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ حراست میں لیے گئے احتجاجی رہنماؤں کی رہائی تک احتجاج جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور انہوں نے حکومت سے کرفیو ہٹانے اور بدھ سے بند یونیورسٹیوں کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے مطالبات پر عمل کرنے کے لئے حکومت کو 48 گھنٹے کی ڈیڈ لائن دی ہے۔

گزشتہ ہفتے مظاہروں میں ہزاروں افراد زخمی ہوئے تھے جب سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، ربڑ کی گولیاں اور ساؤنڈ گرنیڈ کا استعمال کیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بے چینی کی وجہ نجی شعبے میں ملازمتوں کی جمود اور نوجوانوں کی بے روزگاری کی بلند شرح ہے جس کی وجہ سے سرکاری ملازمتوں میں باقاعدگی سے تنخواہوں میں اضافہ اور دیگر مراعات زیادہ پرکشش ہو گئی ہیں۔

رواں سال مسلسل چوتھی بار حلف اٹھانے والی حسینہ واجد پر ماضی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اظہار رائے کی آزادی پر کریک ڈاؤن کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

Comments

200 حروف