غزہ شہر کے رہائشی گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں اور جمعرات کو شدید اسرائیلی جارحیت کے سبب امدادی کارکن گلیوں میں پڑی لاشیں اٹھانے سے قاصر ہیں۔ واشنگٹن نے مصر اور قطر میں ہونے والے مذاکرات میں امن معاہدے پر زور دیا ہے۔

حماس کا کہنا ہے کہ اس ہفتے غزہ شہر میں بڑے پیمانے پر اسرائیلی حملے جنگ کے خاتمے کی کوششوں کو سبوتاژ کرسکتے ہیں کیوں کہ مذاکرات اختتامی مراحل میں داخل ہوچکے ہیں۔

جنگ سے پہلے غزہ کے ایک چوتھائی سے زیادہ باشندوں کا مسکن غزہ سٹی گزشتہ سال لڑائی کے پہلے ہفتوں کے دوران تباہ ہوگیا تھا تاہم لاکھوں فلسطینی کھنڈرات بننے والے اپنے مکانات کو لوٹ چکے ہیں۔

اب انہیں ایک بار پھر اسرائیلی فوج کی جانب سے انخلا کا حکم دیا گیا ہے۔

غزہ کی وزارت صحت نے کہا کہ اسے غزہ شہر کے تل الحوا اور صبرا اضلاع میں گھروں کے اندر پھنسے ہوئے لوگوں اور متعدد افراد کے شہید ہونے کی اطلاعات ہیں اور امدادی کارکن ان تک نہیں پہنچ سکے۔

سول ایمرجنسی سروس نے کہا کہ اس کا اندازہ ہے کہ تل الحوا اور رمل کے علاقوں میں کم از کم 30 افراد شہید ہوئے ہیں اور وہ وہاں کی گلیوں سے لاشیں نہیں نکال سکے۔

غزہ شہر کے رہائشیوں کو بدھ کے روز اسرائیلی فوج کی ہدایات کے باوجود کہ وہ جنوب کی طرف جانے کے لیے دو ”محفوظ راستے“ استعمال کر سکتے ہیں، بہت سے رہائشیوں نے حکم پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ کچھ نے سوشل میڈیا پر ”ہم نہیں جا رہے“ کے جملے کے ساتھ ہیش ٹیگ لگاکر مہم چلائی۔

30 سالہ محمد علی نے ٹیکسٹ میسج کرکے بتایا کہ ہم مر جائیں گے لیکن جنوب کی طرف نہیں جائیں گے، ہم نے نو ماہ تک فاقہ کشی اور بموں کو برداشت کیا اور ہم یہاں شہید ہونے کیلئے تیار ہیں۔

علی، جس کا خاندان کئی بار شہر کے اندر ہی نقل مکانی کرچکا ہے، نے بتایا کہ ان کے پاس خوراک، پانی اور ادویات کی قلت ہے۔

انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیلی فوج غزہ شہر پر ایسے بمباری کر رہی ہے جیسے جنگ دوبارہ شروع ہو رہی ہو، ہم امید کرتے ہیں کہ جلد ہی جنگ بندی ہو جائے گی، لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو یہ خدا کی مرضی ہے۔

رفح میں لڑائی

اسرائیل نے گذشتہ سال غزہ کی پٹی پر اپنی جارحیت کا آغاز اس وقت کیا جب حماس نے سرحدی باڑ کو عبور کر کے جنوبی اسرائیل میں گھس کر 1,200 افراد کو ہلاک کیا اور 250 سے زائد افراد کو یرغمال بنالیا۔

طبی حکام کے مطاق اس کے بعد سے شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت میں اب تک 38,000 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے کہا کہ اسرائیلی فورسز غزہ کے مشرق میں شجاعیہ کے مضافاتی علاقے سے دو ہفتوں سے زائد عرصے تک کی بمباری کے بعد نکل گئی ہیں، بمباری میں درجنوں افراد شہید اور رہائشی اضلاع تباہ ہوئے۔

مصر کی سرحد کے قریب رفح کے جنوبی کنارے پر، جہاں مئی سے شہر کے بیشتر حصوں میں ٹینک سرگرم ہیں، رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج حماس ، اسلامی جہاد اور دیگر مزاحمتی گروہوں کیخلاف لڑائی کے دوران مغربی اور وسطی علاقوں میں مکانات کو اڑانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئی ہے۔

فلسطینی محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ مغربی رفح میں تل السلطان میں اسرائیلی فضائی حملے میں ایک بچے سمیت چار افراد شہید ہو گئے۔

اسرائیلی فوج نے اس سے قبل جمعرات کو کہا تھا کہ رفح کے علاقے سے فائر کیے گئے تقریباً پانچ راکٹوں کو کامیابی کے ساتھ مار گرایا گیا۔

قطر اور مصر میں ہونے والے مذاکرات گزشتہ ہفتے حماس کی جانب سے اہم رعایتوں کے بعد ہوئے ہیں جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ جنگ بندی کا آغاز ہو سکتا ہے اور کچھ یرغمالیوں کو اسرائیل کی جانب سے جنگ کے خاتمے پر رضامندی کے بغیر رہا کیا جا سکتا ہے۔

اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو، جنہیں حماس کو شکست دینے تک جنگ روکنے والے کسی بھی معاہدے پر اپنی دائیں بازو کی کابینہ میں مخالفت کا سامنا ہے، کا کہنا ہے کہ ایک معاہدے کے تحت اسرائیل کو اس وقت تک لڑائی دوبارہ شروع کرنے کی اجازت ملنی چاہیے جب تک کہ وہ اپنے تمام مقاصد حاصل نہ کر لے۔

رائٹرز کے رابطہ کرنے پر حماس کے دو عہدیداروں نے مصر، قطر اور امریکہ کی قیادت میں جاری مذاکرات کے مواد پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

ثالثی کے قریب ایک فلسطینی اہلکار نے تفصیل بتائے بغیر کہا کہ حماس اور ثالثوں کے درمیان آج ایک اجلاس ہوگا جس میں یہ معلوم کیا جائے گا کہ انہیں قابض فوج کی جانب سے کیا ردعمل ملا ہے۔

Comments

200 حروف