سابق نگران وزیر تجارت و صنعت ڈاکٹر گوہر اعجاز نے حکومت پر زور دیا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس ریلیف دیا جائے اور اس طبقے کیلئے زیادہ سے زیادہ شرح 15 فیصد رکھی جائے۔

جمعہ کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کا سہارا لیتے ہوئے صنعت کار نے مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس بجٹ میں ہم سب سے ٹیکس کی مد میں 13 ہزار ارب روپے وصول کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے جبکہ گزشتہ مالی سال میں 9.3 ہزار ارب روپے جمع کیے گئے تھے۔ 18 ویں ترمیم کے مطابق تخمینہ ٹیکس میں سے 7.5 ٹریلین روپے صوبوں کو جائیں گے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ملک بینکوں کو 20 فیصد پر 9.8 ٹریلین روپے سے زیادہ کا سود ادا کرے گا۔ انہوں نے سوال کیا کہ میں اپنی حکومت سے پوچھتا ہوں کہ ہم شرح سود کو 20 فیصد پر کیوں رکھ رہے ہیں جب کہ جون میں سالانہ بنیادوں پر مہنگائی 12 فیصد ہے, کیا یہ گزشتہ سال جون کے معیاری افراط زر کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ سے ہے؟

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم سب اپنے ملک کے بہترین مستقبل کے لئے ٹیکس ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ تنخواہ دار طبقے پر زیادہ سے زیادہ 15 فیصد ٹیکس عائد کرے، ہمیں شرح سود کو 12 فیصد تک لانا ہوگا اور اس سود کی لاگت سے 4 کھرب روپے کی بچت کو تنخواہ دار خاندانوں کو ریلیف دے کر خرچ کرنا ہوگا۔

سابق نگران وزیر کا یہ بیان حکومت کی جانب سے بجٹ 2024-25 میں 50 ہزار روپے ماہانہ سے زائد کمانے والے تمام افراد پر ٹیکس واجبات میں اضافے کے بعد سامنے آیا ہے۔

گوہر اعجاز نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس میں ریلیف دینے سے ملکی معیشت کو ترقی ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے انہیں ہماری معیشت میں خرچ کرنے کے لئے زیادہ قوت خرید ملے گی جس سے حکومت کو زیادہ بالواسطہ ٹیکس ریونیو ملے گا اور وہ باعزت طور پر اپنی زندگی گزار سکیں گے۔

پاکستان کے تنخواہ دار طبقے نے گزشتہ چند برسوں کے دوران ٹیکسوں کے بوجھ میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھا ہے کیونکہ حکومت ’آسان اہداف‘ پر غور کر رہی ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بڑھانے کی کوشش میں اسے اکثر پاکستان کے رسمی شعبوں پر ٹیکس لگانے اور غیر رسمی شعبوں پر خاطر خواہ توجہ نہ دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

مزید برآں صنعتکار کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے اپنے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کا واحد راستہ دوست ممالک اور دیگر بینکوں سے مزید قرض لینا نہیں بلکہ صنعت اور برآمدات کو قابل عمل بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم صرف زراعت، خدمات اور صنعت سے برآمدات پیدا کر کے غیر ملکی قرض ادا کر سکتے ہیں، حکومت مہربانی کرتے ہوئے موجودہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینے کی ذہنیت سے باہر آئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بجٹ کسی بھی طرح پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کرسکتا۔

Comments

200 حروف