سابق نگران وزیر تجارت و صنعت ڈاکٹر گوہر اعجاز نے حکومت پر زور دیا کہ وہ تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس میں ریلیف فراہم کرے اور شرح کو زیادہ سے زیادہ 15 فیصد تک کم کرے۔

جمعہ کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ڈاکٹر گوہر اعجاز نے رواں مالی سال کے بجٹ میں حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ نئے بجٹ میں ہم سب سے ٹیکس کی مد میں 13 کھرب روپے وصول کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے جب کہ گزشتہ مالی سال 9.3 ٹریلین روپے جمع کیے گئے تھے۔ 18 ویں ترمیم کے مطابق تخمینہ ٹیکس میں سے 7.5 ٹریلین روپے صوبوں کو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ملک بینکوں کو 20 فیصد پر 9.8 ٹریلین روپے سے زیادہ کا سود ادا کرے گا ۔ میں حکومت سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہم شرح سود کو 20 فیصد پر کیوں رکھ رہے ہیں جب کہ جون میں سالانہ افراط زر 12 فیصد پر رہی ہے۔

ہم سب اپنے ملک کے بہترین مستقبل کے لئے ٹیکس ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ تنخواہ دار طبقے پر زیادہ سے زیادہ 15 فیصد ٹیکس عائد کرے، ہمیں شرح سود کو 12 فیصد تک لانا ہوگا اور اس سود کی لاگت سے 4 کھرب روپے کی بچت کو تنخواہ دار خاندانوں کو ریلیف دے کر خرچ کرنا ہوگا۔

سابق نگران وزیر کا یہ بیان حکومت کی جانب سے بجٹ 2024-25 میں 50 ہزار روپے ماہانہ سے زائد کمانے والے تمام افراد پر ٹیکس واجبات میں اضافے کے بعد سامنے آیا ہے۔

گوہراعجاز نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس میں ریلیف دینے سے ملکی معیشت کو ترقی ملے گی ۔ اس سے انہیں ہماری معیشت میں خرچ کرنے کے لئے زیادہ قوت خرید ملے گی جس سے حکومت کو زیادہ بالواسطہ ٹیکس ریونیو ملے گا اور وہ باعزت طور پر اپنی زندگی گزار سکیں گے۔

تنخواہ دار طبقے نے گزشتہ چند برسوں کے دوران ٹیکسز کے بوجھ میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھا ہے کیونکہ حکومت ’آسان اہداف‘ پر غور کررہی ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بڑھانے کی کوشش میں اسے اکثر پاکستان کے رسمی شعبوں پر ٹیکس لگانے اور غیر رسمی شعبوں پر خاطر خواہ توجہ نہ دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کا واحد راستہ دوست ممالک و دیگر بینکوں سے مزید قرضے لینا نہیں بلکہ صنعت اور برآمدات کو قابل عمل بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم زراعت، خدمات اور صنعت سے برآمدات پیدا کرکے ہی غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کرسکتے ہیں۔ براہ کرم موجودہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرض لینے کی اس ذہنیت سے باہر آئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ کسی بھی طرح پاکستان کیلئے آگے بڑھنے کی راہ پر گامزن نہیں ہے۔

Comments

200 حروف