ترکیے کے مرکزی بینک نے جمعرات کے روز اپنی بنیادی شرح سود توقع کے مطابق 50 فیصد پر برقرار رکھی اور اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ افراط زر کے خطرات کے حوالے سے انتہائی محتاط ہے۔ بینک کا کہناہے کہ نقدی کی صورتحال پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔

بینک نے آخری بار مارچ میں افراط زر کے نقطہ نظر میں خرابی کا حوالہ دیتے ہوئے شرح سود میں 500 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا تھا۔ یہ اپریل اور مئی میں مستحکم رہی، بینک نے عزم ظاہر کیا کہ اگر صورتحال خراب ہوتی ہے تو پالیسی کو مزید سخت کیا جائے گا۔

مجموعی طور پر، بینک نے گزشتہ سال جون سے اپنی پالیسی ریٹ میں 4,150 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا ہے جس نے اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے صدر طیب اردگان کی جانب سے کئی سالوں کے مالیاتی محرکات کو تبدیل کر دیا ہے۔

بینک کا کہنا ہے کہ اس کا سخت مالیاتی موقف اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک ماہانہ افراط زر کے بنیادی رجحان میں نمایاں اور مستقل کمی نہیں دیکھی جاتی اور افراط زر کی توقعات متوقع پیشگوئی کی حد تک پہنچ جاتی ہیں۔

مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کریڈٹ اور ڈپازٹ مارکیٹوں میں غیر متوقع پیش رفت کی صورت میں مانیٹری ٹرانسمیشن میکانزم کو اضافی میکرو پروفیشنل اقدامات کے ذریعے سپورٹ کیا جائے گا۔

اس اعلان کے بعد لیرا ڈالر کے مقابلے میں 32.8715 پر تھوڑا سا تبدیل ہوا جو اس ہفتے کے شروع میں آنے والی 33.03 کی سطح سے زیادہ مضبوط ہے۔

حکومت نے کہا ہے کہ نئی پالیسیاں مہنگائی کو موجودہ سطح سے نیچے لانے میں مدد کریں گی، جو مئی میں 75.45 فیصد تک پہنچ گئی تھی، جبکہ ملک کے دائمی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بہتری لانے میں مدد ملے گی۔

رواں ماہ کے اوائل میں مرکزی بینک کے گورنر فتح کرہان نے کہا تھا کہ جون سے مہنگائی میں کمی آنا شروع ہو جائے گی، اس کے ساتھ ساتھ گھریلو طلب میں کمی اور سخت پالیسی شرائط بھی ہوں گی۔ بینک نے سال کے آخر میں افراط زر کی شرح 38 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے جبکہ مارکیٹ کی پیش گوئی 42 فیصد ہے۔

روئٹرز کے ایک سروے میں تمام 11 جواب دہندگان نے توقع ظاہر کی کہ بینک جون میں اپنی پالیسی ریٹ کو مستحکم رکھے گا۔ سال کے آخر یا اگلے سال کی پہلی سہ ماہی تک شرح سود میں کٹوتی کی توقع نہیں ہے۔

Comments

200 حروف