ایرانی عوام نئے صدر کے انتخاب کیلئے جمعے کو ووٹ دیں گے، صدارتی انتخابات میں 6 امیدواروں میں ایک واحد اصلاح پسند رہنما بھی شامل ہیں جنہیں امید ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران میں قدامت پسندوں کے غلبے کو چیلنج کرسکتے ہیں۔

خیال رہے کہ ایران میں صداراتی انتخابات 2025 کو ہونے تھے تاہم گزشتہ ماہ قدامت پسند صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں موت کے بعد یہ انتخابات منعقد کیے جارہے ہیں۔

یہ صدارتی انتخابات ایسے وقت میں ہورہے ہیں جب اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ جنگ پر بڑھتی ہوئی علاقائی کشیدگی کے درمیان ایران کو بین الاقوامی پابندیوں کے معاشی اثرات کا سامنا ہے۔

اپریل میں ایران نے اسرائیل پر 300 سے زیادہ میزائل اور ڈرون فائر کیے تھے، ایران نے اس کارروائی کو دمشق میں فضائی حملے کا ردعمل قرار دیا تھا جس میں پاسدران انقلاب کے 7 اہلکار مارے گئے تھے۔ ایران نے دمشق میں فضائی حملے کا الزام اسرائیل پر لگایا تھا۔

ایران کی جانب سے ڈرونز فائر کیے جانے کے بعد اسرائیل نے اصفہان کے قریب مبینہ طور پر جوابی حملہ کیا۔

ایران میں یہ پولنگ اس کے روایتی حریف ملک اور اسرائیل کے کٹر اتحادی امریکہ میں صدارتی انتخابات سے محض پانچ ماہ قبل ہورہی ہے۔

۔
۔

ایران کے دوسرے اعلیٰ ترین عہدے کے لیے قدامت پسند پارلیمان کے اسپیکر محمد باقر غالباف، انتہائی قدامت پسند سابق جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی اور واحد اصلاح پسند مسعود پیشکیان اہم امیدوار ہیں۔

دیگر میں تہران کے قدامت پسند میئر علی رضا زکانی، مذہبی رہنما مصطفیٰ پورمحمدی اور موجودہ نائب صدر امیر حسین غازی زادہ ہاشمی شامل ہیں جو شہدا فاؤنڈیشن کے انتہائی قدامت پسند سربراہ ہیں۔

ان چھ افراد نے بڑے پیمانے پر مگر کم اہمیت کی حامل مہم چلائی ہے جس میں ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے مباحثے بھی شامل ہیں جس میں انہوں نے اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کا عہد کیا اور مغرب کے ساتھ ایران کے تعلقات کے بارے میں مختلف خیالات پیش کیے۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے علی ویز کا کہنا ہے کہ نئے صدر کو ’ریاست اور معاشرے کے درمیان بڑھتی ہوئی دراڑ‘ کے چیلنج سے بھی نمٹنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی امیدوار نے ٹھوس منصوبہ پیش نہیں کیا ہے کہ وہ ان بہت سے مسائل سے کیسے نمٹیں گے۔

میں ووٹ نہیں دے رہی ہوں

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے شہریوں کو تاکید کی ہے کہ وہ جمعے کے روز انتخابات میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں۔

2021 کے انتخابات میں، جس میں ابراہیم رئیسی صدر منتخب ہوئے تھے، رائے دہندگان نے بہت سے اصلاح پسندوں اور اعتدال پسندوں کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد انتخابات سے گریز کیا۔

اس وقت ووٹڈالنے کی شرح 49 فیصد سے بھی کم تھی جو ایران میں کسی بھی صدارتی انتخابات میں سب سے کم ہے۔

لوگ اس بات پر منقسم نظر آتے ہیں کہ کیا ووٹنگ کے نتیجے میں ان کے تحفظات کو دور کردیا جائے گا۔

ان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ڈالر کے مقابلے میں ریال کی گراوٹ کے بڑھتے ہوئے اثرات شامل ہیں۔

شمالی تہران میں صرف اپنا پہلا نام بتانے والی ایک انجینئر نیڈا نے کہا کہ میں قطعی طور پر ووٹ کاسٹ نہیں کررہی۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عہدہ کون لیتا ہے، ان میں سے کسی کو بھی قوم سے ہمدردی نہیں ہے، میرے ووٹ سے کچھ بھی اثر نہیں پڑے گا۔ اس کے برعکس 60 سالہ گھریلو خاتون جلیح نے کہا کہ وہ اصلاح پسند پیششکیان کی حمایت کر رہی ہیں، جو “عوامی نمائندے “ ہیں اور بے روزگاری اور غربت پر قابو پا سکتے ہیں۔

سابق صدر محمد خاتمی اور سابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف سمیت اصلاح پسند شخصیات نے پیشکیان کی حمایت کی ہے۔

غالب ایک تجربہ کار سیاست دان اور پاسداران انقلاب کے سابق رکن ہیں جو 1979 ء کے انقلاب کے بعد ایران کے نظریاتی محافظ سمجھے جاتے ہیں۔

جلیلی، جو ایک انتہائی قدامت پسند سابق جوہری مذاکرات کار ہیں، جو مغرب کے بارے میں اپنے غیر لچکدار موقف کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، سخت گیر حمایت حاصل کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

حجاب سے متعلق خدشات

35 سالہ ٹیکس کنسلٹنٹ علی رضا ولادخانی نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ غالباف کو ووٹ دیں گے کیونکہ وہ واحد شخص ہیں جو موجودہ صورتحال میں ملک کی مدد کرسکتے ہیں۔

رائے دہندگان کے درمیان ایک تشویش یہ ہے کہ آیا نئے صدر کے آنے سے خواتین کے لیے حجاب کے متنازع قانون میں ممکنہ تبدیلی ہو گی، خاص طور پر جب سے 2022 میں مہسا امینی کی حراست میں موت کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے۔

22 سالہ ایرانی کرد امینی کو مبینہ طور پر ایران کے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا جس کے تحت خواتین اپنے سر اور گردن کو ڈھانپتی ہیں اور عوامی مقامات پر روایتی لباس پہنتی ہیں۔

احتجاج کے بعد سے خواتین نے ضابطہ اخلاق کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے۔ لیکن پولیس نے حالیہ مہینوں میں قوانین کو نظر انداز کرنے والوں پر سخت کنٹرول کیا ہے۔

زیادہ تر امیدواروں نے ٹیلی ویژن پر ہونے والے مباحثوں میں محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عام طور پر ان لوگوں کے خلاف تشدد کے استعمال کی مخالفت کرتے ہیں جو روایتی یا لازما قرار دیا گیا حجاب نہیں پہنتے۔

 ۔
۔

پیشکیان نے کہا کہ 40 سالوں سے ہم نے حجاب کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی لیکن ہم نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا۔

بہت سی خواتین کے نزدیگ حجاب کے قوانین میں تبدیلی خام خیالی ہے۔

31 سالہ مریم نواز کا کہنا تھا کہ امیدواروں کے لیے اپنے وعدوں کو پورا کرنا مشکل ہے۔

نیدا نے کہا حجاب کا قانون کبھی نہیں اٹھایا جائے گا کیونکہ یہ اسلامی ملک ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی صدر اس قانون کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہو گا۔

Comments

200 حروف