منگل کو کراچی پریس کلب (کے پی سی) میں ایک منفرد پریس کانفرنس ہوئی۔ یہ ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن یا بزنس چیمبر کے نمائندے نہیں تھے جو کم ٹیکسوں یا سستی بجلی کی فراہمی کیلئے بریفنگ دے رہے تھے بلکہ یہ وہ لوگ تھے جو پاکستان کے صنعتی اور خدمات کے شعبوں کو چلانے میں مدد کرتے ہیں۔

پاکستان کے تنخواہ دار طبقے کی نمائندگی کرنے والے اراکین نے ایک جامع اور مختصر پریس بریفنگ میں اپنی شکایات درج کیں اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے توجہ دینے کی اپیل کی۔

’تنخواہ دار طبقے کے اتحاد پاکستان‘ کے رکن عدیل احمد خان نے پریس کانفرنس میں سوال کیا کہ اگر ٹیکسز کو اس طرح ہی بڑھانا ہے تو رسمی شعبے سے ایک سمجھدار اور پڑھے لکھے شخص کو باگ ڈور دینے کا کیا فائدہ ہے؟

ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ ارکان جب پریس کانفرنس کررہے تھے تو اس وقت محمد اورنگزیب اسلام آباد میں قومی اسمبلی میں بجٹ میں معمولی ترامیم پیش کر رہے تھے۔ وزیر خزانہ نے تنخواہ دار طبقے کا ذکر نہیں کیا۔

تاہم اس برائے نام اتحاد کی نمائندگی کرنے والے چھ ارکان نے باری باری پاکستان کے ٹیکس نظام سے متعلق شکایات درج کیں۔

عدیل کا اشارہ وزیر خزانہ کی جانب تھا جو حبیب بینک لمیٹڈ کے صدر اور سی ای او تھے جنہیں اس امید کے ساتھ قلمدان سونپا گیا کہ وہ مشعیت کو مشکلات سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

تاہم اس کے بجائے تنخواہ دار طبقے نے رواں ماہ کے اوائل میں وزیر خزانہ کی جانب سے ان کے پہلے ہی بجٹ میں اس قدر ٹیکسز کا نفاذ دیکھا جس سے وہ کانپ اٹھے ہیں۔

اگر یہاں سے 100 ارب روپے اور وہاں سے 50 ارب روپے ٹیکسوں میں اضافہ کرنا تھا تو یہ کام کوئی بھی ایسا کر سکتا تھا۔

یہ پریس بریفنگ حکومت کی جانب سے 12 جون کو اعلان کردہ بجٹ 2024-25 میں 50 ہزار روپے ماہانہ سے زائد کمانے والے تمام افراد کی ٹیکس ذمہ داری میں اضافے کے بعد سامنے آئی۔

فنانس بل 2024 میں ٹیکس سلیب سے واضح ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ اثر ہر اس شخص پر پڑے گا جو سالانہ 6 ملین روپے (500,000 روپے ماہانہ) کے برابر یا اس سے زیادہ کمانے والا ہے کیوں کہ یہ آمدن رکھنے والوں کیلئے ٹیکس واجبات میں 22,500 روپے کا اضافہ ہوا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سالانہ 12 ملین روپے (1 ملین روپے ماہانہ) سے زیادہ کمانے والے تنخواہ دار افراد کے لیے ٹیکس میں اضافہ بھی 22,500 روپے ہی ہے۔

جب کہ حکومت نے انکم ٹیکس کی چھوٹ کی حد کو نہیں چھویا – جو کہ اب بھی 50,000 روپے پر ہے – تنخواہوں کی دیگر تمام سطحوں پر ٹیکسز بڑھادیے ہیں۔ مثال کے طور پر، 100,000 روپے ماہانہ کمانے والا شخص اب 2,500 روپے ماہانہ ادا کرے گا جو پہلے کی سطح 1,250 روپے سے زیادہ ہے۔

تنخواہ دار طبقے کا اتحاد پاکستان گزشتہ سال اس بجٹ کے بعد قائم کیا گیا تھا جس میں بھی گروپ پر زیادہ ٹیکس لگایا گیا تھا۔

اسلام آباد نے گزشتہ برسوں کے دوران تنخواہوں پر ٹیکسوں میں اضافہ کیا ہے اور 11 سالوں کے دوران اس میں سات گنا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ چار سالوں میں یہ اضافہ خاص طور پر بہت زیادہ رہا ہے۔

الائنس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ زمیندار جو زراعت سے جی ڈی پی کا 20 فیصد کماتے ہیں وہ ایک فیصد سے بھی کم ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ اجرت کمانے والے 35 فیصد تک ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صرف ایک تنخواہ دار طبقہ ہے جو مکمل انکم ٹیکس ادا کرتا ہے اور اس پر ٹیکس کا بوجھ پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔ ایک اور رکن عبید اللہ شریف نے کہا کہ حالیہ بجٹ میں یہ متوسط طبقہ ٹوٹ گیا ہے۔

ایک اور رکن عادل اقبال نے کہا کہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے بجائے پہلے سے ہی مایوس تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ ڈالا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان سے بیرون ممالک میں تعلیم یافتہ افراد کی منتقلی میں 119 فیصد اضافہ ہوا ہے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ ٹیکسوں میں ظالمانہ اضافہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے باہر جانے کی تعداد فوری طور پر کم کرنے کی ضرورت ہے۔

الائنس نے پریس بریفنگ میں مطالبہ کیا کہ تنخواہ دار ملازمین کے لیے کم از کم ٹیکس کی حد 50 ہزار روپے ماہانہ کے بجائے ایک لاکھ روپے ماہانہ مقرر کی جائے۔ ٹیکس کی شرح کو کم از کم رواں مالی سال کی شرح پر لایا جائے۔

ایک نام نہاد دلیل، کہ برین ڈین سے ترسیلات زر کی شکل میں بھی پاکستان کو مدد ملے گی، کے جواب میں عادل نے کہا کہ اگر حکمران ایسا سوچتے ہیں تو وہ گمراہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیرون منتقل ہوجاتے ہیں – ہنر مند لوگ – ترسیلات زر واپس نہیں بھیجتے ہیں۔

گروپ کی ایک اور رکن کومل علی نے یہ بھی کہا کہ پاکستان چھوڑنے والے ناراض افراد ترسیلات زر بھیجنا نہیں چاہیں گے۔

اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ بہت سے چھوٹے کاروبار اب اپنے ملازمین کو نقد ادائیگی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے معیشت کو باضابطہ بنانے کے سرکاری مقصد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

مطالبات

الائنس نے پریس بریفنگ میں مطالبہ کیا کہ تنخواہ دار ملازمین کے لیے کم از کم ٹیکس کی حد 50 ہزار روپے ماہانہ کے بجائے ایک لاکھ روپے ماہانہ مقرر کی جائے۔ ٹیکس کی شرح کو کم از کم گزشتہ مالی سال کی شرح پر لایا جانا چاہئے۔

سرکاری ملازمین کو ان کی مراعات، گاڑیوں اور پلاٹوں پر دی جانے والی ٹیکس چھوٹ یا تو ختم کی جائے یا نجی شعبے کے تمام ملازمین کو مساوی استثنیٰ دیا جائے۔

سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈالنے کے بجائے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے۔

الائنس نے کہا کہ اگر حکومت ان کے مطالبات پر کان نہیں دھرتی ہے تو وہ قانونی آپشنز بھی تلاش کرسکتے ہیں اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔

Comments

200 حروف