حکومت کی جانب سے انسداد دہشت گردی کیخلاف نئی مہم کے آغاز کا اعلان جس کا نام آپریشن عزم استحکام رکھا گیا ہے،طویل عرصے سے التوا کا شکار تھا، دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر گزشتہ چند برسوں کے دوران قومی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

نیشنل ایکشن پلان کی سینٹرل اپیکس کمیٹی کے 22 جون کو ہونے والے اجلاس کے دوران کیا گیا یہ فیصلہ ایک کثیر الجہتی حکمت عملی کا خاکہ پیش کرتا ہے جس میں نہ صرف دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے فوج کو استعمال کیا جائے گا بلکہ اس میں سفارتی، سماجی و اقتصادی اور قانون سازی کے اقدامات کا بھی تصور پیش کیا گیا ہے، امید ہے کہ حکمران اشرافیہ کو اب احساس ہو گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف میدان جنگ میں نہیں جیتی جا سکتی اور اگر ہم اس خطرے کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس کے غیر فوجی پہلوؤں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ چند سالوں میں ٹی ٹی پی اور اس کے دیگر گروپس کی کابل میں افغان طالبان کی دوبارہ اقتدار میں واپسی سے حوصلہ افزائی ہوئی ہے، جس سے ملک بھر میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا۔

قومی سلامتی کی سنگین صورت حال ایک عرصے سے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن مہم کے آغاز کا تقاضہ کررہی ہے لیکن اب نامعلوم وجوہات کی بنا پر حکمرانوں کی توجہ اس خطرے کی طرف معنی خیز انداز میں مبذول کرائی گئی ہے۔

انسداد دہشت گردی کی اس تاخیری مہم نے یہ تاثر دیا ہے کہ یہ بیرونی اثرورسوخ ہے جس نے ہماری قیادت کو اس مسئلے کو فیصلہ کن انداز میں حل کرنے کی ترغیب دی ہے۔

وزیراعظم کے حالیہ دورہ بیجنگ میں میزبانوں نے پاکستان میں چینی شہریوں اور سی پیک منصوبے کے تحفظ کی ضرورت اور ملک میں چینی سرمایہ کاروں کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لئے ایک محفوظ اور قابل اعتماد کاروباری ماحول کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

اگرچہ چینیوں کی جانب سے ظاہر کیے گئے خدشات درست ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ حکومت اس تاثر کو دور کرے کہ یہ آپریشن کسی بیرونی دباؤ کے تحت شروع کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ ایک طویل عرصے سے واضح ہے، دہشت گردی کی لعنت نے ہماری قومی سلامتی اور بے گناہ شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ درحقیقت یہ ہماری جنگ ہے اور یہ ہمارے قومی مفاد میں ہے کہ ہم انسداد دہشت گردی کے اقدامات کا آغاز کریں جس سے ریاست کی رٹ پر سوال اٹھانے والے مذموم عناصر کے خاتمے میں مدد ملے۔

بہتر ہوگا کہ حکومت آگے بڑھ کر اس پیغام کو پوری طرح سے پھیلا دے۔ اسے سماج کے تمام طبقوں، خاص طور پر ملک کے ان حصوں میں رہنے والوں ساتھ ملانے کو بھی یقینی بنانا چاہئے جو انسداد دہشت گردی مہم سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے، اور ساتھ ہی ان تحفظات کو بھی دور کرنا چاہئے جو سیاسی جماعتوں کو اس کے مختلف خدوخال کے بارے میں ہوسکتے ہیں۔

اس سلسلے میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کے ساتھ جیسا کہ اپوزیشن جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے ، یہ ضروری ہے کہ حکومت آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بھی بلائے۔ واضح رہے کہ قومی اہمیت کے گزشتہ ادوار کے دوران اے پی سیز نے اتحاد کا احساس پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ۔جیسا کہ آرمی پبلک اسکول قتل عام کے فورا بعد اور 2019 میں بھارت کی جانب سے بالاکوٹ حملے کے نتیجے میں بھارتی طیارے کو مار گرائے جانے کے بعد ہوا تھا۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک نازک لمحہ ہے اور اس کے لئے معاشرے کے تمام طبقوں کی حمایت کی ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ ہی حزب اختلاف کی جماعتوں کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ قومی سلامتی کی موجودہ صورت حال ناقابل برداشت ہے اور صرف سیاسی وجوہات کی بنا پر انسداد دہشت گردی کی مہم پر کسی بھی طرح کی تنقید سے گریز کیا جانا چاہیے۔

یہ بھی امید کی جا سکتی ہے کہ آپریشن عزم استحکام کے غیر فوجی پہلو نفرت کے اس ماحول کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کریں گے جو برسوں سے فروغ پا رہی ہے، جس کا مقصد پاکستانی معاشرے کو ہر قسم کے انتہا پسند نظریات کی افزائش گاہ میں تبدیل کر نا ہے۔

لہٰذا، حالیہ دنوں میں بے تحاشہ خونریزی کا سبب بننے والی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف لڑائی لڑنے کے علاوہ، حکومت ایسے اقدامات کو بھی ترجیح دے جو ہماری سماجی جگہوں کو بنیاد پرستی سے پاک کرنے اور انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کریں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف