ملک کی سب سے بڑی آئل مارکیٹنگ کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کی انتظامیہ کا ماننا ہے کہ گردشی قرضوں کی رقم طے کرنے کیلئے ایکویٹی سویپ ہی ’واحد قابل عمل‘ آپشن ہے۔

یہ پیش رفت پی ایس او کی کارپوریٹ بریفنگ کے دوران سامنے آئی، جس کے نوٹ بروکریج ہاؤس ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے جاری کیے، جس نے پیر کو سیشن میں شرکت کی۔

ٹاپ لائن کے مطابق، پی ایس او کی انتظامیہ نے ایکویٹی سویپ کی تجویز دی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ ”حکومت کے پاس نقد رقم نہیں ہے لہذا گردشی قرضوں کی بقایا رقم کو طے کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ پی ایس او کی قابل وصول رقم کو حکومت پاکستان کے اثاثوں کے ساتھ تبدیل کیا جائے“۔

اس میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ اسے واحد قابل عمل آپشن کے طور پر لیتی ہے۔

آئی ایم ایف نے کہا کہ پاکستان کے توانائی اور گیس کے شعبوں میں مجموعی گردشی قرضہ جون 2023 تک 4.6 ٹریلین روپے (17 ارب ڈالر) یا جی ڈی پی کا تقریبا 5 فیصد تھا۔

گردشی قرضہ عوامی قرضوں کی ایک شکل ہے جو بجلی کے شعبے کے سلسلے میں واجبات کی ادائیگی میں ناکامی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ، جس کا آغاز صارفین سے ہوتا ہے اور تقسیم کار کمپنیوں کو منتقل ہوتا ہے ، جو پاور پلانٹس کے مقروض ہیں ، جنہیں پھر ایندھن فراہم کرنے والے پی ایس او کو ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔

حکومت یا تو ان کمپنیوں کی سب سے بڑی شیئر ہولڈر ہے، یا براہ راست مالک ہے، جس کی وجہ سے قرضوں کو وصول کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور مالی سختی کی وجہ سے نقد رقم کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مئی میں ایک انٹرویو میں پی ایس او کے منیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او سید محمد طحہٰ نے یہ بھی کہا تھا کہ ادارہ پبلک سیکٹر کی توانائی کمپنیوں میں حصص حاصل کرنے اور قومی ایئرلائن جیسی کمپنیوں کے بڑھتے ہوئے قرضوں کو پورا کرنے کے منصوبے پر حکومت کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔

طحہٰ نے اس وقت کہا تھا کہ ’سب کچھ مسابقتی بولی کے ذریعے کیا جائے گا اور ہم اس میں حصہ لیں گے اور اگر ہم بولی جیت جاتے ہیں تو (پی ایس او کی وصولیوں) کے مقابلے میں حصص کی بھرپائی کی جائے گی۔‘

یہ ہماری تجویز ہے اور اس پر غور کیا جا رہا ہے، اس لیے ہم حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

دریں اثنا ٹاپ لائن نے پیر کو اپنی بریفنگ میں بتایا کہ پی ایس او انتظامیہ نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ صارفین کی گیس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کے درمیان ایل این جی وصولیوں کی بروقت ادائیگی کی وجہ سے کمپنی کی لیکویڈیٹی کی صورتحال میں بہتری کا امکان ہے۔

پارٹی کے لحاظ سے ایس این جی پی ایل سے 500 ارب روپے، جینکو سے 150 ارب روپے، حبکو اور پی آئی اے سے 27 ارب روپے وصول کیے جانے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ایس او کی کل وصولیاں 810 ارب روپے بنتی ہیں۔

مستقبل کے لئے کمپنی کے نقطہ نظر سے آگاہ کرتے ہوئے ، پی ایس او کی انتظامیہ نے بتایا کہ کمپنی مختلف آپشنز پر کام کر رہی ہے جن میں الیکٹرک چارجنگ اسٹیشنوں کا قیام ، فن ٹیک ، این بی ایف سی اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں تنوع شامل ہے۔

یہ نئے اسٹوریجز کی بحالی اور ترقی، شمالی پاکستان میں وائٹ آئل پائپ لائن منصوبے میں سرمایہ کاری، اور مختلف مقامات اور خوردہ دکانوں پر آٹومیشن اور ڈیجیٹلائزیشن پر بھی غور کر رہا ہے۔

پی ایس او کے پاس 19 ڈپوز، 14 ہوائی اڈوں پر ایندھن بھرنے کی سہولیات، دو بندرگاہوں پر آپریشنز اور 1.14 ملین ٹن ذخیرہ کرنے کی پاکستان کی سب سے بڑی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے علاوہ 3,528 ریٹیل آؤٹ لیٹس کا نیٹ ورک ہے۔

Comments

200 حروف