سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مجوزہ ٹیکس اقدامات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، جن کے مطابق ملک میں مہنگائی بڑھے گی۔

یہ ریمارکس کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے ہفتہ کو کمیٹی کے اجلاس کے دوران دئیے، جس میں پیکڈ اور بچے کے دودھ سمیت بنیادی غذائی اشیا پر ٹیکس عائد کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور دودھ، اسٹیشنری اشیاء کے ساتھ ساتھ کمپیوٹرز پر سیلز ٹیکس میں اضافے کے مجوزہ ٹیکس کو مسترد کردیا گیا۔

مانڈوی والا نے کہا کہ کمیٹی پیر کو سینیٹ کو سفارشات پیش کرے گی اور کہا کہ حکومت کی جانب سے اگلے مالی سال کے بجٹ میں تجویز کردہ ٹیکسوں کے نتیجے میں ہر سطح پر مہنگائی میں 10 فیصد اضافہ ہوگا۔

کمیٹی نے بچوں کے دودھ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا ، ارکان کا کہنا تھا کہ 40 فیصد سٹنٹنگ ریٹ والے ملک میں اس طرح کے اقدام کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی انوشہ رحمان نے کہا کہ دودھ پر سیلز ٹیکس بڑھانا ظلم ہے اور فیصلہ کرنے سے پہلے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی شیری رحمان نے بھی ان کی حمایت کی اور سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ حکومت بنیادی اشیائے خوردونوش، آلو اور پیاز پر 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جلد ایک وقت آئے گا جب قبروں کی زمین پر بھی ٹیکس لگے گا۔

انوشہ رحمان نے ایف بی آر حکام سے کھلے دودھ کی قیمت کے بارے میں بھی استفسار کیا اور ایف بی آر حکام کو اس بات کا کوئی علم نہیں تھا کہ کھلے دودھ کی صحیح قیمت کیا ہے اور جواب دیا کہ انہوں نے کبھی کچا دودھ نہیں خریدا ہے۔

انہوں نے مزید استفسار کیا کہ چکن کا کیا ریٹ ہے اور تجویز دی کہ ایف بی آر حکام کو بازار جا کر دودھ اور چکن خریدنے کی ضرورت ہے تاکہ قیمتوں کے بارے میں جان سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ یہ چیزیں خریدیں گے تو آپ میں ہمدردی پیدا ہو جائے گی،

ایف بی آر حکام نے کہا کہ اسٹیشنری کی اشیاء پر 10 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز ہے اور پیکڈ دودھ، بچوں کے دودھ اور اسٹیشنری پر ریلیف سے ٹیکس وصولی میں 107 ارب روپے کی کمی ہو گی۔ دودھ اور بچوں کے دودھ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز ہے اور حکومت ضرورت مند خاندانوں کو نقد امداد فراہم کرے گی۔ ایف بی آر حکام نے بتایا کہ افغانستان سے درآمد کی جانے والی سبزیوں اور پھلوں پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط کے تحت کیا گیا ہے کیونکہ فنڈ تمام چھوٹ ختم کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دودھ پر سیلز ٹیکس سے 40 ارب روپے اور سٹیشنری سے 6.5 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

کمیٹی نے مقامی طور پر تیار ہونے والی اسٹیشنری پر 10 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز کو مسترد کر دیا اور کمپیوٹرز پر سیلز ٹیکس 5 سے 10 فیصد تک بڑھانے پر اتفاق نہیں کیا۔ انوشہ رحمٰن نے استفسار کیا کہ اگر حکومت کے ہاتھ آئی ایم ایف کی وجہ سے اتنے بندھے ہیں تو پھر فاٹا اور پاٹا کو کیوں رعایت دے رہے ہیں۔

ایف بی آر حکام نے جواب دیا کہ تین فیصد آبادی والے اضلاع کو 92 ارب روپے کی سہولت مل رہی ہے اور کہا کہ ایف بی آر نے اس تجویز کی مخالفت کی لیکن کابینہ ہر سال استثنیٰ میں توسیع کرتی رہی ہے۔

تاہم ذیشان خانزادہ نے کہا کہ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ جب تک انڈسٹری مکمل طور پر فعال نہیں ہو جاتی ریلیف کو جاری رکھا جائے اور کہا کہ سٹیل انڈسٹری کے علاوہ اس سہولت کا غلط استعمال معمولی ہے۔

انہوں نے مقامی سپلائی پر سیلز ٹیکس چھ فیصد سے کم کرکے تین فیصد کرنے کی تجویز بھی دی۔ کمیٹی نے خانزادہ کی تجاویز کی تائید کی۔ خیراتی اسپتالوں کے لیے سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تجویز پر ایف بی آر نے موقف اختیار کیا کہ سرکاری اسپتال بھی سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن خیراتی اسپتال سیلز ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ فلاحی ادارے بیرون ملک سے مشینری اور آلات درآمد کرتے ہیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ چیریٹی اسپتال کے ڈاکٹر مکمل لیبارٹری اور آپریشن کی فیس وصول کر رہے ہیں۔

ایف بی آر کے اہلکار نے بتایا کہ انہیں پیٹرولیم مصنوعات پر صوبائی ٹیکسوں کے ریفنڈز اور 65 ارب روپے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو واپس کرنے ہیں۔

فیصل واوڈا نے کہا کہ ایف بی آر بیرون ملک جائیدادوں پر ایک فیصد ٹیکس مانگ رہا ہے اور تجویز دی کہ ایف بی آر اسے کم کر کے 0.4 فیصد کر دے۔ انہوں نے کہا کہ غیر ملکی املاک پر ٹیکس کم کیا جائے تاکہ عوام جائیداد ڈکلیئر کر سکیں۔ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ٹیکس زیادہ ہونے پر لوگ باہر کی جائیداد کا اعلان نہیں کریں گے۔

کمیٹی نے سوئیوں اور پولٹری فیڈ پر 10 فیصد سیلز ٹیکس اور ایل پی جی پر 15 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز کی منظوری دی۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ کمپیوٹرز پر سیلز ٹیکس 5 سے بڑھا کر 10 فیصد کرنے کی تجویز ہے اور کمیٹی اس تجویز سے متفق نہیں۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ ڈرگ ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ تمام ادویات پر یکم جولائی سے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ کمیٹی نے اجلاس میں وزیر خزانہ، وزیر مملکت برائے خزانہ اور سیکریٹری خزانہ کی غیر موجودگی پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا اور چیئرمین نے وزیر خزانہ کو ہدایت کی کہ انہیں اجلاس میں ہونا چاہیے تھا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف