بے روزگاری کی شرح میں سب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے والے معاملات میں سے ایک ملک کی بہت زیادہ شرح پیدائش ہے۔ اقتصادی سروے 2023-24 کے مطابق ملک میں موجودہ شرح پیدائش 6.3 فیصد ہے۔

دنیا کی پانچویں بڑی آبادی رکھنے والے ملک پاکستان میں جہاں معشیت پہلے سے ہی سست روی کی شکار ہے، بہت زیادہ شرح پیدائش کے سبب بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگا۔

آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح روزگار کو دو طریقوں سے کم کرتی ہے۔ ایک براہ راست ہے، ہر سال ملازمت کے حصول کیلئے گنجائش سے کہیں لوگ آجاتے ہیں

اور دوسرا بالواسطہ طور پر. کیونکہ زیادہ شرح پیدائش کا مطلب یہ بھی ہے کہ زیادہ تر بچوں کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جاسکتی ۔ لہٰذا غذائی قلت اور ناقص غذائیت کے شکار پیدا ہونے والے بچوں کی شرح بھی اتنی ہی خطرناک ہے۔

اس سے انہیں اپنی زندگی کے آغاز میں ہی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ذہنی اور جسمانی نشوونما سے سمجھوتہ ان کی تعلیم سے حاصل ہونے والے فوائد کو محدود کر دیتا ہے – اگر وہ خوش قسمت ہیں کہ ان کے پاس تعلیم ہے – اور بالآخر انہیں پہلے سے ہی بہت تنگ ملازمت کے بازار کے حاشیے پر دھکیل دیا جاتا ہے۔

روزگار کے تازہ ترین اعداد و شمار لیبر فورس سروے (ایل ایف ایس) 2020-21 سے آتے ہیں، کیوں کہ پی بی ایس (پاکستان بیورو آف شماریات) 2022-23 میں ساتویں آبادی اور ہاؤسنگ مردم شماری میں مصروف تھا – مبینہ طور پر ایل ایف ایس 2024-25 پر کام جاری ہے – اور ظاہر کرتا ہے کہ اگرچہ کچھ رجحانات تبدیل ہوئے ہیں ، دیگر نہیں۔

مثال کے طور پر تکنیکی تبدیلی نے روزگار کا بڑا حصہ زراعت (37.4 فیصد) سے صنعت اور خدمات کی طرف منتقل کردیا ہے۔

صرف خدمات کا شعبہ اب معیشت کا سب سے بڑا ترقی کرنے والا شعبہ ہے جس میں 37.2 فیصد افرادی قوت شامل ہے ۔

اس کے علاوہ بھی وہی پریشان کن رجحانات ہیں . سب سے کم عمر گروپ (15سے 24 سال کی عمر) میں بے روزگاری کی شرح 11.1 فیصد کے ساتھ سب سے زیادہ ہےاور دوسرے سب سے کم عمر گروپ (عمر 25 سے 34) میں 7.3 فیصد پر سب سے زیادہ ہے اور دونوں معاملات میں مردوں کے مقابلے میں خواتین میں زیادہ بے روزگاری کی شرح ہے۔

بالکل اسی طرح نوجوانوں کی بڑھتی تعداد آبادیاتی منافع سے آبادیاتی تباہی میں بدل جاتا ہے۔

پاکستان کا شمار دنیا کے کم عمر ترین ممالک میں ہوتا ہے، یعنی اس کی آبادی کی ایک بڑی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اور یہ اثاثہ ہونے کے بجائے ایک ذمہ داری بن گیا ہے کیونکہ یہ اسی معیشت پر ایک اضافی بوجھ ہے جسے اس سے اضافی رفتار فراہم کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔

روزگار کے یہ اعداد و شمار جو کافی خراب ہیں، اگر پی بی ایس نے کم روزگار کا بھی سروے کیا تو یہ بہت بدتر ہو جائیں گے۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ گزشتہ چند برسوں کی مالی تباہی اور اس کے ساتھ بے روزگاری میں اضافے نے متوسط طبقے کے زیادہ تر لوگوں کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے متعدد چھوٹی موٹی ملازمتوں پر کام کرنے پر مجبور کر دیا ہے جبکہ اس سے کم آمدنی والے طبقہ تباہ ہوگیا ہے لہٰذا صرف بے روزگاری ہی حقیقی اور مکمل تصویر پیش نہیں کرتی۔

رواں سال کے بجٹ کی نوعیت اور آئی ایم ایف پروگرام کی ضروریات یہ واضح کرتی ہیں کہ معیشت اگلے چند سالوں تک کم شرح نمو کے بینڈ میں پھنسی رہے گی۔ کم از کم اس وقت تک جب تک بیل آؤٹ قرض کی کئی قسطوں کے لئے سخت ساختی ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔

حکام کو مستقبل کے بارے میں بہت سنجیدگی سے سوچنے اور لیبر مارکیٹ پر غیر ضروری دباؤ کو کم کرنے کے لئے وہ سب کچھ کرنے کی ضرورت ہے جو وہ کرسکتے ہیں۔ شرح پیدائش کو قابو میں رکھنا ضروری ہے، پالیسی سازی کا ایک ایسا پہلو جس پر اوپر سے زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف