غزہ کے باشندوں نے اسرائیلی بمباری سے شہید مساجد اور شدید گرمی میں اپنے خیموں میں اتوار کو عیدالاضحیٰ منانا شروع کردی۔ اسرائیلی جارحیت جاری رہنے کے سبب غزہ میں عید الاضحیٰ پر روایتی مذہبی جوش و خروش اور خوشیاں معدوم ہوچکی ہیں۔

جنگ سے بے گھر ہونے کے بعد خان یونس شہر میں ایک خیمہ بستہ میں گزر بسر کرنے والی 57 سالہ خاتون ملاکیہ سلمان نے کہا کہ ہمارے لیے یہاں اب کوئی خوشی نہیں کیوں کہ ہم سے سب کچھ چھین لیا گیا ہے۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح غزہ کے باشندے بھی عام طور پر عیدالاضحیٰ کے ایام میں جانور قربان کرتے ہیں اور پھر گوشت ضرورت مند افراد میں تقسیم کرتے ہیں۔

عید پر بچوں کو والدین کی جانب سے نئے کپڑے اور عیدی بھی دی جاتی ہے۔

لیکن اس بار، آٹھ ماہ سے زائد وقت کی تباہ کن اسرائیلی مہم نے غزہ کے بیشتر حصے کو تباہ کردیا ہے اور محصور علاقے کے 2.4 ملین لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے، جنگ نے عالمی سطح پر بھی غزہ میں قحط کے متعدد انتباہات کو جنم دیا ہے، عید کے پرمسرت ایام بھی فلسطینیوں کیلئے کسی مصیبت سے کم نہیں۔

ملاکیہ سلمان نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ دنیا ہم پر مسلط کردہ جنگ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالے گی کیونکہ ہم واقعی مر رہے ہیں اور ہمارے بچے ٹوٹ چکے ہیں۔

جنوبی رفح شہر میں اسرائیلی جارحیت سے ملاکیہ کا خاندان بے گھر ہوچکا ہے کیوں کہ اب وہاں اسرائیلی فوج کا قبضہ ہے۔

اسرائیلی فوج نے اتوار کی صبح غزہ کے لوگوں کو انسانی امداد کی اشد ضرورت کی ترسیل آسان بنانے کے لیے رفح کے علاقے کے راستے کے ارد گرد “فوجی سرگرمیوں کو حکمت عملی کے تحت معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اے ایف پی کے نامہ نگاروں نے بتایا کہ صبح کے بعد سے حملوں یا گولہ باری کی کوئی اطلاع نہیں ہے حالانکہ اسرائیلی فوج نے زور دیا ہے کہ جنوبی غزہ کی پٹی میں جارحیت کا خاتمہ نہیں ہوگا۔

لڑائی میں مختصر وقفے نے عبادت گزاروں کو عید الاضحیٰ کے پہلے روز سکون کا ایک نادر لمحہ فراہم کیا ہے۔

’**عجیب‘ خاموشی**

بہت سے لوگ عید الاضحی کی صبح کی نماز کے لیے غزہ شہر کی تاریخی عمری مسجد کے صحن میں جمع ہوئے، جسے اسرائیلی بمباری میں بہت زیادہ نقصان پہنچا تھا، اور اپنی ٹوٹی ہوئی جائے نمازیں ملبے کے ڈھیروں کے پاس رکھیں۔

دعاؤں کی آوازیں شہر کی کچھ تباہ شدہ اور ویران گلیوں میں گونج رہی تھیں۔

غزہ شہر سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ ہیثم الثورہ نے کہا کہ آج صبح سے ہم نے گولی باری یا بمباری کے بغیر سکون محسوس کیا ، یہ عجیب بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ وقفے کا مطلب ہے کہ ایک مستقل جنگ بندی قریب ہے۔ حالانکہ جنگ بندی کی ثالثی کی کوششیں مہینوں سے رکی ہوئی ہیں۔

جنگ زدہ علاقے کے کئی مقامات خاص طور پر غزہ شہر میں نوجوان لڑکوں کو تباہ شدہ عمارتوں اور گھروں کے ملبے کے ڈھیروں کے پس منظر میں سڑک کے کنارے پرفیوم، لوشن اور دیگر اشیاء فروخت کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

بہت سے دکانداروں نے غزہ شہر کی مرکزی بازار والی سڑک پر گھریلو اشیاء فروخت کرتے ہوئے چلچلاتی دھوپ سے خود کو بچانے کے لیے چھتریوں کا استعمال کیا۔ لیکن خریدار کم تھے۔

بہت سے لوگوں کے لیے اسرائیلی جارحیت کا رکنا بھی وہ چیزیں واپس نہیں لا سکتی جو وہ کھوچکے ہیں۔

غزہ میں وزارت صحت کے مطابق گزشتہ برس 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں اب تک کم ازکم 37,296 افراد شہید ہو چکے ہیں۔

’**آرام‘**

شمالی غزہ کے جبالیہ پناہ گزین کیمپ سے تعلق رکھنے والی ام محمد الکطری نے کہا کہ ہم نے بہت سے لوگوں کو کھو دیا ہے، بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ عید بالکل مختلف ہے، بہت سے غزہ کے باشندے جنگ کے دوران شہید ہونے والے اپنے پیاروں کے بغیر اور بے گھر ہوکر عید الاضحیٰ گزار رہے ہیں۔

اتوار کے روز غمزدہ خاندان قبرستانوں اور دیگر عارضی تدفین کے مقامات پر پہنچ گئے جہاں قبروں پر لکڑی کے کتبے لگے ہیں۔

خلیل دیاب اسبیہ نے اسرائیلی ڈرونز کی مسلسل گونج کے باوجود کہا کہ مجھے قبرستان میں سکون محسوس ہورہا ہے۔ ان کے دو بچے یہاں مدفون ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اتنی بڑی تباہی اور اموات کے باوجود قبرستان آنے والے افراد اپنے پیاروں کے پاس بیٹھ کر راحت محسوس کرتے ہیں۔

رفح سے بے گھر ہوکر خان یونس آنے والی 11 سالہ حنا ابو جزر نے کہا کہ ہم قابض اسرائیلی فوج کے ہاتھوں بچوں، خواتین، بوڑھوں کو قتل ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

Comments

200 حروف