اسرائیل وسطی غزہ میں اسکولوں اور رہائشی علاقوں جیسے شہری اہداف کو نشانہ بنانا جاری رکھے ہوئے ہے اور اسرائیلی فوج نے حماس اور اسلامی جہاد کے جنگجوؤں پر ’درست‘ حملے کا دعویٰ کیا ہے اور مرنے والوں میں خواتین، بچوں اور بزرگوں کی بڑی تعداد کے باوجود اسکی ذمہ داری سے بچنے میں کامیاب رہا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن، جن کا ”امن منصوبہ“ اپنے ”دوست“ بینجمن نیتن یاہو کی وجہ سے دم توڑ چکا ہے، اب بھی درست قدم اٹھانے اور اسرائیل کو اس پاگل پن سے روکنے کے لئے تیار نہیں ہیں، حالانکہ ہلاکتوں کی تعداد چالیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

حالات جوں کے توں ہیں، اس قتل عام کے میکینکس بہت سیدھے ہیں۔ یہاں تک کہ مغرب کا وہ حصہ جو اسرائیل کے روایتی اتحادی ہیں، نسل کشی کے اقدام سے مکمل طور پر متفق نہیں ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہودی ریاست ناقابل تصور مظالم کا ارتکاب کر رہی ہے، وہ اسے روکنا چاہتے ہیں لیکن جانتے ہیں کہ یہ اس وقت تک رکنے والا نہیں ہے جب تک کہ اسے امریکہ کا حکم نہیں دیا جاتا۔

اس لئے اب امریکہ واحد طاقت اور اثر و رسوخ والا ملک بن گیا ہے جو اسرائیل کو غزہ کی پٹی میں جو کچھ بچا ہے اس پر حملہ کرنے کے لیے بلینک چیک دے رہا ہے۔ اور واحد سپر پاور کو اس نسل کشی میں نہ صرف شریک بلکہ ذمہ دار بھی بنارہا ہے۔

اس کے باوجود بائیڈن انتظامیہ نتن یاہو کو موسم گرما کے آخر میں کانگریس سے خطاب کے لیے واشنگٹن مدعو کر کے دنیا کی توہین جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ اعلان مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیس کی رپورٹ کے ساتھ سامنے آیا ہے جس میں اسرائیل کی طرف سے پچھلے آٹھ مہینوں کے دوران “ نامعلوم حراستی مراکز“ میں فلسطینی قیدیوں کے خلاف کی جانے والی خوفناک تشدد اور تذلیل کی سرعام مذمت کی گئی ہے۔ ان میں ”برقی کرنٹ، قیدیوں کو ڈائپر پہننے پر مجبور کرنا، اور بدتمیزی“ شامل ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بدسلوکی، تشدد، بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری، نصف صدی سے زائد عرصے سے اسرائیلی حکمرانی کے تحت فلسطینیوں کے لیے روز مرہ کی حقیقت رہی ہے‘، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے نہ صرف اسرائیل کے دوست ممالک بلکہ دنیا کے بڑے اداروں نے جو اسرائیل کے ساتھ ہمیشہ دوستانہ تعلقات رکھتے تھے نے اپنی آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا ہے۔

اس کے باوجود نیتن یاہو کو فوری طور پر روکنے اور دو ریاستی حل پر کام شروع کرنے کی طاقت رکھنے والا واحد ملک نہ صرف ان حقائق سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے بلکہ وہ اب بھی اسرائیل کو مزید علاقوں کو تباہ کرنے اور مزید لوگوں کو مارنے کے لئے رقم اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔

اسرائیلی، خاص طور پر نیتن یاہو، ڈیموکریٹس کا اتنا احترام نہیں کرتے جتنا کہ وہ سپر پاور کے اندر اپنے طاقتور سرپرستوں ریپبلکنز کا احترام کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بائیڈن نیتن یاہو کا خواب حقیقت میں بدلنے والے ثابت ہوئے ہیں۔

نیتن یاہو نے اپنے جنگی مقاصد میں سے کوئی بھی حاصل نہیں کیا ہے۔ حماس ابھی تقریبا ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ اپنے ”مخصوص“ علاقوں میں مسلسل ابھر رہی ہے۔ شاید اس لیے کہ بچ جانے والے غم زدہ اپنے پیاروں کے قتل عام کا بدلہ لینے کے لیے اس کا رخ کر رہے ہیں۔ اور گھر آنے والے یرغمالی باڈی بیگز میں واپس آرہے ہیں۔

لیکن بائیڈن نے نیتن یاہو کو عہدے پر برقرار رہنے میں مدد کی ہے۔ اب بھی، جب کہ ہر ہفتے کے آخر میں لاکھوں لوگ ان کی برطرفی کا مطالبہ کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آتے ہیں، جنگ ہی وہ واحد چیز ہے جو انہیں عہدے پر برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس عہدے کے بغیر، انہیں بدعنوانی کے اس مقدمے کے لیے عدالت میں گھسیٹا جائے گا، اور ممکنہ طور پر جیل بھیج دیا جائے گا۔

لہٰذا وہ جتنی دیر تک بے گناہ فلسطینیوں کو قتل کر سکتے ہیں اور اس کا الزام حماس کے پر عائد کر سکتے ہیں ، اتنی ہی دیر وہ اپنے ملک میں انصاف سے بچ سکتے ہیں۔ لہٰذا اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ وہ اب لبنان میں حزب اللہ کو نشانہ بنا کر جنگ کو وسعت دینا چاہتے ہیں۔

واشنگٹن کو عالمی برادری کی بات سننے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جس طرح نیتن یاہو بائیڈن کی بات نہیں سن رہے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ وسیع تر جنگ کو جنم دینے کا خطرہ مول لے رہے ہیں، اسی طرح بائیڈن بھی نیتن یاہو پر پابندی لگانے کے بارے میں دنیا کی بات نہیں سن رہے ہیں، جو نہ صرف اسرائیل کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں، بلکہ دنیا میں امریکہ کی ساکھ کو بھی دائو پر لگا رہے ہیں۔

Comments

200 حروف