عالمی رہنما ہفتے کے روز سوئٹزرلینڈ میں ایک سربراہی اجلاس کے لیے جمع ہو رہے ہیں جس کا مقصد روس پر یوکرین میں اپنی جنگ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے لیکن ماسکو کے طاقتور اتحادیوں جیسے چین کی عدم موجودگی اس کے ممکنہ اثرات کو ختم کر دے گی۔

یوکرین کے درجنوں اتحادی سربراہی اجلاس میں حصہ لیں گے لیکن روس کو اس اجلاس سے دور کرنے کو بنیاد بناکر اس کے اہم اتحادی چین نے بھی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سربراہی اجلاس کو وقت کا ضیاع قرار دیا۔

چین کے بغیر، ماسکو کو الگ تھلگ کرنے کی امیدیں ختم ہو گئی ہیں، جبکہ حالیہ فوجی تبدیلیوں نے کیف کو بیک فٹ پر کھڑا کر دیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ کی جنگ نے یوکرین سے بھی توجہ ہٹا دی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ بات چیت میں جنگ سے پیدا ہونے والے وسیع تر خدشات، جیسے خوراک اور جوہری سلامتی اور جہاز رانی کی آزادی پر توجہ مرکوز کرنے کی توقع ہے اور حتمی اعلامیے کے مسودے میں روس کو تنازع میں جارح مزاج کے طور پر شناخت کیا گیا ہے۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ میں اقوام متحدہ کے ڈائریکٹر رچرڈ گوون نے کہا کہ سربراہی اجلاس میں یوکرین کی سفارت کاری کی حدود کو ظاہر کرنے کے خطرات ہیں، بہر حال یہ یوکرین کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ دنیا کو یاد دلائے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کا دفاع کر رہا ہے۔

روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے جمعہ کے روز کہا کہ روس یوکرین میں جنگ صرف اسی صورت میں ختم کرے گا جب کیف اپنے نیٹو کے عزائم کو ترک کرنے اور ماسکو کے دعویٰ کردہ چاروں صوبوں کو حوالے کرنے پر راضی ہو جائے - کیف کے مطالبات کو فوری طور پر ہتھیار ڈالنے کے مترادف قرار دے کر مسترد کر دیا جائے۔

پیوٹن کی شرائط ماسکو کے بڑھتے ہوئے اعتماد کی عکاسی کرتے ہیں کہ جنگ میں اس کی افواج کا غلبہ ہے۔

ماسکو یوکرین میں اپنے خصوصی فوجی آپریشن کو مغرب کے ساتھ وسیع تر جدوجہد کے حصے کے طور پر پیش کرتا ہے جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ مغرب روس کو گھٹنوں پر لاناچاہتا ہے۔ کیف اور مغرب اسے مسترد کرتے ہیں اور روس پر فتح کیلئے غیر قانونی جنگ چھیڑنے کا الزام لگاتے ہیں۔

سوئٹزرلینڈ جس نے یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی کے پرزور مطالبے پر سربراہی اجلاس منعقد کیا، مستقبل کے امن عمل کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے جس میں روس بھی شامل ہے۔

لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مہلک ترین یورپی تنازعہ پر جغرافیائی سیاسی تقسیم نے اس تقریب کو روک دیا ہے اور زیلنسکی نے بیجنگ اور ماسکو پر کوششوں کمزور کرنے میں مدد کرنے کا الزام بھی لگایا ہے، اس الزام کی چین کی وزارت خارجہ نے تردید کی ہے۔

چین نے کہا تھا کہ وہ حصہ لینے پر غور کرے گا تاہم اس نے روس کی عدم موجودگی کے سبب بلآخر انکار کر دیا

چین میں سابق سوئس سفیر نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ اس وقت جغرافیائی سیاسی لحاظ سے چین کے لیے روس کے ساتھ خصوصی تعلقات کو کسی بھی دوسرے معاملے پر فوقیت حاصل ہے۔

تقریباً 90 ممالک اور تنظیموں نے وسطی سوئٹزرلینڈ میں پہاڑی ریزرو بورجن اسٹاک میں ہونے والے دو روزہ اجلاس میں شرکت کا عہد کیاہے۔ اس سربراہی اجلاس کو چین کی طرف سے پیش کردہ متبادل منصوبے کا بھی مقابلہ کرنا پڑا۔

امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس اور فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ، کینیڈا اور جاپان کے رہنما شرکت کرنے والوں میں شامل ہیں۔ روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھنے والے بھارت، ترکی اور ہنگری کے بھی شامل ہونے کی امید ہے۔

روس، جس نے فروری 2022 میں دسیوں ہزار فوجی یوکرین میں بھیجے تھے، اپنے بغیر سربراہی اجلاس کے خیال کو ”بے فائدہ“ قرار دیا ہے۔

یورپی حکام نجی طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ ماسکو کے اہم اتحادیوں کی حمایت کے بغیر سربراہی اجلاس کا اثر محدود رہے گا۔

ڈینیئل ووکر، سابق سوئس سفیر نے کہا کہ زیلنسکی اس سے کیا امید کر سکتے ہیں؟ تاہم یہ روسی جارحیت کا شکار ہونے والے یوکرین کے ساتھ بین الاقوامی یکجہتی میں ایک اور چھوٹا قدم ہے۔

Comments

200 حروف