پاکستان

پاکستان کا بجٹ نئے پروگرام کیلئے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں مدد کریگا، موڈیز

حکومت اپنی نصف سے زیادہ آمدنی سود کی ادائیگی پر خرچ کرتی ہے، جو قرضوں کی کمزور استطاعت کی نشاندہی ہے،عالمی ریٹنگ ایجنسی
شائع June 14, 2024

عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز ریٹنگز نے جمعے کے روز کہا ہے کہ حکومت پاکستان کے مالی سال 2024-25 کے لیے نئے اعلان کردہ بجٹ سے اسلام آباد کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ نئی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے لیے جاری مذاکرات میں ’ممکنہ طور پر مدد‘ ملے گی۔

تاہم، اس نے متنبہ کیا کہ بلند افراط زر کے تناظر میں سماجی تناؤ میں اضافہ حکومت کے اصلاحات کے نفاذ پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔

بدھ کے روز وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پاکستان کے وفاقی بجٹ 2024-25 کا اعلان کیا، جس میں آئندہ مالی سال کے لئے 3.6 فیصد کی معمولی نمو کا ہدف رکھا گیا ہے، کیونکہ اسلام آباد آئی ایم ایف کو خوش کرنے اور زیادہ ٹیکسوں کے ساتھ اپنی بڑھتے ہوئے اخراجات کو متوازن کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے ساتھ ایک طویل اور بڑے پروگرام کے لئے بات چیت میں مصروف ہے کیونکہ وہ مستقل میکرو اکنامک استحکام کا خواہاں ہے۔ اورنگ زیب نے اپنی بجٹ تقریر اور بعد از بجٹ پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ جولائی کے اوائل میں اسٹاف کی سطح کے معاہدے کو حتمی شکل دی جاسکتی ہے۔

بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے موڈیز نے کہا کہ مالی سال 25 کے بجٹ میں ٹیکسوں میں اضافے اور متوقع برائے نام نمو کے ذریعے مالی استحکام میں تیزی لانے کی نشاندہی کی گئی ہے۔

عالمی ریٹنگ ایجنسی نے کہا کہ اعلان کردہ بجٹ ممکنہ طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے نئے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام کے لئے جاری مذاکرات میں مدد کرے گا جو حکومت کے لئے اپنی بیرونی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف اور دیگر دو طرفہ اور کثیر الجہتی شراکت داروں سے فنانسنگ حاصل کرنے کے لئے اہم ہوگا۔

تاہم، یہ اصلاحات کے نفاذ کو برقرار رکھنے کی حکومت کی قابلیت ہوگی جو پاکستان کو اپنے بجٹ اہداف کو پورا کرنے اور اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بیرونی فنانسنگ کو مسلسل جاری رکھنے کی اجازت دینے میں کلیدی کردار ادا کرے گی، جس سے لیکویڈیٹی خطرات میں مستحکم کمی آئے گی۔

موڈیز نے متنبہ کیا ہے کہ زندگی گزارنے کی زیادہ لاگت (جو زیادہ ٹیکسوں اور مستقبل میں توانائی کے محصولات میں ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے بڑھ سکتی ہے) کی وجہ سے سماجی تناؤ میں اضافہ اصلاحات کے نفاذ پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔

اس کے علاوہ یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ مخلوط حکومت کے پاس مشکل اصلاحات کو مسلسل نافذ کرنے کے لیے کافی مضبوط انتخابی مینڈیٹ نہیں ہے۔

حکومت نے مالی سال 2025 کے لئے مجموعی (وفاقی اور صوبائی) بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 5.9 فیصد کرنے کا اعلان کیا ہے، جو مالی سال 2024 کے تخمینے 7.4 فیصد سے کم ہے۔ پرائمری بیلنس مالی سال 2025 کے لیے جی ڈی پی کا 2.0 فیصد سرپلس مقرر کیا گیا ہے جو مالی سال 2024 کے لیے 0.4 فیصد تھا۔

حکومت نے مالی سال 2025 کے لئے حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 3.6 فیصد اور مرکزی افراط زر کی شرح 12 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا ہے۔

موڈیز کا کہنا ہے کہ بجٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بنیادی طور پر محصولات میں اضافے اور اخرامات میں کمی کے ذریعے تیزی سے مالی استحکام حاصل کرنا چاہتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے وفاقی حکومت کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ کرکے 17.8 کھرب روپے کرنے کا چیلنجنگ ہدف مقرر کیا ہے جو ایک سال قبل کے مقابلے میں 46 فیصد زیادہ ہے۔

موڈیز کا کہنا ہے کہ محصولات میں اضافے کی وجہ ٹیکس محصولات میں 40 فیصد اضافہ ہے جو حکومت نئے ٹیکسوں (مثال کے طور پر کاروں، سیمنٹ، اسٹیل، گیس اور ڈیزل پر زیادہ ٹیکس) اور مستحکم برائے نام نمو کے امتزاج کے ذریعے حاصل کرنا چاہتی ہے۔

مجموعی طور پر حکومت نے مالی سال 2024 میں 11.5 فیصد سے مالی سال 2025 میں ریونیو/جی ڈی پی میں 14.3 فیصد اضافے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ بجٹ میں وفاقی حکومت کے مجموعی اخراجات کا ہدف 18.9 کھرب روپے مقرر کیا گیا ہے جو ایک سال قبل کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ ہے۔

موڈیز کا کہنا ہے کہ اخراجات میں اضافہ اخراجات پر قابو پانے کے لیے اہم اقدامات کے فقدان اور پاکستان کی جانب سے بہت زیادہ شرح سود کی ادائیگی کی عکاسی کرتا ہے۔

ادارے نے کہا کہ بجٹ میں مختص سبسڈیز 27 فیصد اضافے کے ساتھ 1.4 کھرب روپے تک پہنچ گئیں، جس کی بنیادی وجہ توانائی کے شعبے میں سبسڈی میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہے، جو توانائی کے شعبے میں اصلاحات میں محدود پیش رفت کی عکاسی کرتا ہے۔

حکومت نے سرکاری شعبے کی پنشن اور تنخواہوں کے بجٹ میں بھی اضافے کا اعلان کیا ہے۔

موڈیز کا کہنا ہے کہ دریں اثنا، حکومت اپنی نصف سے زیادہ آمدنی سود کی ادائیگیوں پر خرچ کرتی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرضوں کی استطاعت بہت کمزور ہے جس کی وجہ سے قرضوں کی پائیداری کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

بجٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ مالی سال 2025 میں قرضوں کی ادائیگیوں میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں تقریبا 18 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مالی سال 2025 کے محصولات کا تقریبا 55 فیصد (9.8 ٹریلین روپے) حکومت کے قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیا گیا ہے۔

موڈیز کا کہنا ہے کہ پاکستان کے کمزور قرضوں کی استطاعت کی وجہ سے قرضوں کی پائیداری کو خطرات لاحق ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص کرنے سے حکومت کی ضروری سماجی اخراجات اور بنیادی ڈھانچے کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے اپنے قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت محدود ہوجائے گی۔

Comments

200 حروف