پاکستان

وزیرخزانہ کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 13 فیصد تک بڑھانے کا عزم

  • جولائی تک آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے پر پہنچ جائینگے ، محمد اورنگزیب
شائع June 13, 2024 اپ ڈیٹ June 14, 2024

وفاقی وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے مالی سال 2024-25 کے بجٹ کے حوالے سے اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات دور کردیے۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس بیس کو وسیع کرنا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب ناقابل قبول ہے۔ تین سال میں ہم ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بڑھا کر 13 فیصد کرنا چاہتے ہیں۔

ہم غیر دستاویزی معیشت کو ختم اور مالیات کو ڈیجیٹلائز کرنا چاہتے ہیں۔

پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) میں 60 روپے سے 80 روپے تک اضافے کی تجویز کے حوالے سے محمد اورنگزیب نے کہا کہ آئندہ مالی سال یہ اضافہ بتدریج کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایل کو تیل کی بین الاقوامی قیمتوں سے جوڑا جائے گا۔

تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگانے کے حوالے سے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے 6 لاکھ روپے تک کے تنخواہ دار طبقے کو استثنیٰ دیا ہے۔ اسی طرح 35 فیصد کے اوپری سلیب میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ۔

تاہم ہم نے تنخواہوں کے سلیب میں تبدیلی کی ہے اور نان فائلرز کو لین دین میں ٹیکس میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔

محمد اورنگ زیب نے کہا کہ حکومت نان فائلرز کا تصور ختم کرنا چاہتی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ریٹیل اور ہول سیل شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے تاکہ ٹیکس بیس کو وسیع کیا جاسکے۔

اپریل میں ہم نے رضاکارانہ بنیاد پر خوردہ فروشوں کی رجسٹریشن شروع کی تھی ۔ جولائی سے ٹیکس لگانا شروع کردیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت 9 ٹریلین روپے کی نقدی گردش میں ہے۔ یہ غیر دستاویزی معیشت کے وزن کو ظاہر کرتا ہے۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ ایکسپورٹ ری فنانس اسکیم اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) سے ایگزم بینک میں منتقل کی جا رہی ہے۔ ہم نے یہ لازمی کر دیا ہے کہ ری فنانس فنڈ کا ایک بڑا حصہ ایس ایم ای سیکٹر کو فراہم کیا جائے گا۔

آئی ٹی کے شعبے کے بارے میں محمد اورنگزیب نے کہا کہ ملک کی آئی ٹی برآمدات 3.5 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں جسے حکومت 5 ارب ڈالر تک لے جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ہماری توجہ آئی ٹی سیکٹر کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس مکمل اعداد و شمار ہیں کہ کس کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں اور ان کی کتنی ٹائم ٹریول ہے اور ان کی طرف سے کتنی رقم ادا کی جارہی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ صوبوں کے ساتھ مشاورت کر رہے ہیں کہ کس طرح محصولات کی حوصلہ افزائی کی جائے اور وفاقی حکومت کے لئے مالی گنجائش پیدا کرنے کے لئے تفویض کردہ موضوعات پر بوجھ کو تقسیم کیا جائے۔

افراط زر کا ہدف

آئندہ مالی سال کے لئے افراط زر کی شرح 12 فیصد مقرر کرنے کے بارے میں سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے کہا کہ یہ شرح حقیقت پسندانہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پالیسی ریٹ 20.5 فیصد پر برقرار ہے جو کافی زیادہ ہے جس کی وجہ سے طلب میں کمی واقع ہوئی ہے۔

دیں اثنا نجکاری کے معاملے پر محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ پی آئی اے اور اسلام آباد ائرپورٹ کے نام سے دو اثاثے پہلے ہی موجود ہیں۔

یہ دونوں لین دین اگست تک مکمل ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ائرپورٹ کی ٹرانزیکشن مکمل ہونے کے بعد وزیراعظم نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ کراچی اور لاہور ائرپورٹس کی دستاویزات بیک وقت تیار کی جائیں۔

آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں وزیر خزانہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ نئے پروگرام کے لئے بات چیت مثبت سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ تاہم میں اس وقت تک زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک کہ ہم عملے کی سطح کے معاہدے پر نہیں پہنچ جاتے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ جولائی تک آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول ایگریمنٹ (ایس ایل اے) ہو جائے گا۔

وزیرخزانہ نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بجٹ تجاویز سے متفق نہیں ہے۔

ہم اپنے تمام شراکت داروں کو بجٹ پریذنٹیشن دیتے ہیں ، انہیں بورڈ میں لیا گیا تھا، کل جب بجٹ پیش کیا جا رہا تھا تو آپ نے پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی دیکھی تھی ۔

حکومتی اخراجات کم کرنے کے حوالے سے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکام کچھ وزارتوں کو بند کرنے پر کام کررہے ہیں جس کا نوٹس آنے والے مہینوں میں ملے گا۔

دبئی لیکس

دبئی لیکس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد کا کہنا تھا کہ وزارت خزانہ نے انہیں اس حوالے سے بریفنگ دینے کی ذمہ داری سونپی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹیکس لگائے ہیں اور 6 ارب روپے کے مقدمات اپیلوں میں ہیں۔ تاہم ہم ان کے نام ظاہر نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پی او ایس اسکیم اور پرائس ڈرا اسکیم کو دوبارہ متعارف کرائیں گے۔

دریں اثنا ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے اعتراف کیا کہ موجودہ پالیسی ریٹ اور توانائی کی قیمتیں صنعتی شعبے کے لئے رکاوٹیں پیدا کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پالیسی ریٹ کم ہورہا ہے اور افراط زر میں کمی کے ساتھ ہم پالیسی ریٹ میں مزید کمی دیکھیں گے جبکہ توانائی کی قیمتوں کے حوالے سے ہمیں جلد ہی اچھی خبر سننے کو ملے گی۔

وزیر مملکت علی پرویز ملک نے کہا کہ توانائی شعبے میں سرجری اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔

سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ ایک فیصد سے زائد پرائمری سرپلس سود کی ادائیگی کے لئے استعمال کیا جائے گا۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر قیادت مخلوط حکومت کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نےوفاقی بجٹ 2024-25 پیش کیا جس میں آئندہ مالی سال کے لئے 3.6 فیصد شرح نمو کا ہدف مقرر کیا گیا ہے کیونکہ اسلام آباد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو خوش کرنے اور زیادہ ٹیکسوں کے ساتھ اپنی بڑھتی ہوئی کتابوں کو متوازن کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بجٹ سے تنخواہ دار طبقہ مایوس ہوا جبکہ کیپٹل مارکیٹس نے جوں کے توں رہنے پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ رئیل اسٹیٹ اور آئی ٹی شعبے مایوس دکھائی دیے جب کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا اعلان کیا گیا ہے ۔

کم از کم اجرت بڑھا کر 37 ہزار روپے کردی گئی اور کچھ تجاویز میں نجکاری اور توانائی شعبے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

Comments

200 حروف