اقتصادی سروے
اقتصادی سروے 2024-25 میں خوشخبری سنائی گئی ہے کہ اہم میکرو اکنامک اشارے پچھلے سال کے اسی عرصے سے بہتر ہیں ، رواں سال جی ڈی پی کی شرح نمو 2.38 فیصد ہے جبکہ گزشتہ سال منفی 0.21 فیصد تھی ( اس کی وجہ تباہ کن سیلاب ، عالمی اجناس کی بڑھتی قیمتیں، عالمی اورمقامی مالیاتی سختی اور سیاسی غیر یقینی صورتحال ہے ، حالانکہ ان تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے اہم فصلوں – گندم، چاول، کپاس پر زرخیزی کا اثر پڑا ہے) گزشتہ سال کے 1.55 فیصد کے مقابلے میں رواں سال زراعت کی شرح نمو 6.25 فیصد رہی، گزشتہ سال کے منفی 2.94 فیصد کے مقابلے میں رواں سال صنعت کی شرح نمو 1.21 فیصد رہی جبکہ خدمات کی شرح نمو گزشتہ سال 0.86 فیصد اور رواں سال مثبت 1.21 فیصد رہی۔
یہ کوئی خوشخبری نہیں کیونکہ جولائی تا مارچ 2022-23 کے ساتھ موازنہ ہی غلط ہے ، اس وقت اسحاق ڈار کی زیر قیادت وزارت خزانہ نے دو بڑی ناقص پالیسیوں کو نافذ کرکے ملک کو خطرناک حد تک ڈیفالٹ کے قریب پہنچا دیا تھا جو اس وقت جاری عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کے تحت کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی تھیں جس کی وجہ سے ان کو جانا پڑا تھا۔ (1) برآمد کنندگان کیلئے 110 ارب روپے کے غیر بجٹ شدہ بجلی سبسڈی کا اعلان جبکہ 33 ملین پاکستانی سال 2022 کے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے تھے۔ اور(ii) روپے اور ڈالر کو کنٹرول کرنا جس کی وجہ سے متعدد بار شرح تبادلہ میں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں ترسیلات زر کی آمد میں 4 ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔ واضح فرق یہ ہے کہ پچھلے مالی سال میں یہ صورتحال اتنی خراب تھی کہ کوئی بھی بہتری، خاص طور پر جب فیصد کے لحاظ سے حساب لگایا جائے تو نمایاں نظر آئے گی۔
اس کے علاوہ رواں سال گندم کی بھرپور فصل کے باوجود نگران پنجاب حکومت کی جانب سے درآمدات کی اجازت دینے کے ناقص فیصلے کے باعث صوبائی حکومت ذخیرہ اندوزی کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے کاشتکاروں سے براہ راست گندم خریدنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے ہزاروں کاشتکاروں کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ سروے میں اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اگرچہ کپاس کی زبردست فصل کی وجہ سے کپاس اور سوتی دھاگے کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے لیکن ٹیکسٹائل چین کی مجموعی برآمدات جولائی تا اپریل 2023ء کے دوران 14.115 ارب ڈالر سے کم ہو کر 13.550 ارب ڈالر رہ گئیں ۔ اس کی عکاسی اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ ٹیکسٹائل کی نمو منفی 8.3 فیصد (جولائی تا مارچ 2024) رہی جس میں فارماسیوٹیکل گروتھ 23.2 فیصد (پاکستان کا فارما سیکٹر خام مال کی درآمد پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے) اور فرنیچر 23.1 فیصد رہا۔
لارج اسکیل مینوفیکچرنگ سیکٹر (ایل ایس ایم) میں گزشتہ سال کے منفی نمو کے مقابلے میں 0.1 فیصد اضافہ ہوا۔ ایل ایس ایم ڈیٹا کو دو پہلوؤں پر وضاحت کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے، پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں رواں سال ایل ایس ایم کی شرح نمو میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ جولائی تا اکتوبر 2023ء کے دوران ایل ایس ایم نے منفی 1.67 فیصد نمو حاصل کی جو رواں سال کے اسی عرصے میں منفی 0.44 فیصد رہی ۔ جو مالی سال 2023 میں جولائی تا جنوری منفی 2.67فیصد سے رواں سال بڑھ کر منفی 0.52 فیصد ہوگئی ،ایل ایس ایم کی شرح نمو اس سال جولائی تا مارچ منفی 0.10 فیصد تھی جب کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے میں منفی 6.99 فیصد تھی ۔
حیران کن طور پر یہ بہتری اس وقت آئی جب سرمایہ کاری گزشتہ سال جی ڈی پی کے 13.6 فیصد سے کم ہو کررواں سال 13.1 فیصد رہ گئی۔
ایک اور حیران کن اعداد و شمارمیں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر بچت پچھلے سال کے 12.6 فیصد سے بہتر ہو کر اس سال 13 فیصد ہوگئی ہے – اور یہ جولائی تا اپریل 26 فیصد مہنگائی کی شرح کے باوجود ہوا۔ اس سال سروے میں بتایا گیا یہ گزشتہ سال جولائی تا جون 28.2 فیصد تھی۔
عام تاثر یہ ہے کہ کم اور زیادہ بیان کردہ اعداد و شمار کو شاید پریشان عوام کو خوش کرنے اور آئی ایم ایف کو قائل کرنے کے لئے اہم سمجھا جاتا ہے کہ معیشت نے نو ماہ طویل اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) پروگرام کے تحت نافذ کی جانے والی پالیسیوں کی بنیاد پر منافع ظاہر کرنا شروع کردیا ہے۔
ملکی قرضہ گزشتہ سال کے سروے میں 35 کھرب روپے سے بڑھ کر اس سال 43.4 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت بیرون ملک کمرشل بینکنگ سیکٹر سے سستے قرضے حاصل کرنے یا خراب ریٹنگ کی وجہ سے سکوک / یورو بانڈز جاری کرنے میں ناکام رہی ہے جسے جولائی 2023 سے ایس بی اے کی منظوری کے بعد سے ابھی تک اپ گریڈ نہیں کیا گیا ہے۔
ریٹنگ خراب ہو یا نہ ہو مگر آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ میں نمایاں بہتری آئی۔
جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر وفاقی ٹیکس ریونیو گزشتہ سال کے 6.1 فیصد کے مقابلے میں رواں سال جولائی تا مارچ 6.3 فیصد کم رہا اور مجموعی اخراجات گزشتہ سال کے 11 فیصد کے مقابلے میں جی ڈی پی کے 11.6 فیصد رہے۔ تاہم اس سال کل آمدنی 9.2 فیصد رہی جو گزشتہ سال 8.3 فیصد تھی۔
مجموعی طور پر براہ راست ٹیکسز میں 41.1 فیصد اضافہ ہوا ہے جسے جان بوجھ کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ ان براہ راست ٹیکسز کا بڑا حصہ بالواسطہ ٹیکس موڈ میں لگائے جانے والے ود ہولڈنگ ٹیکسز سے حاصل ہوا، جس کا اثر امیروں کے مقابلے میں غریبوں پر زیادہ ہوتا ہے ۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو پر زور دیا تھا کہ وہ اس عمل سے باز رہے لیکن ابھی تک اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں تین بڑی بہتریاں ہیں اگرچہ برآمدات اور ترسیلات زر سے مطلوبہ ترسیلات زر ابھی 2022 کی سطح تک نہیں پہنچی ہیں، غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ (دوست ممالک کی جانب سے رول اوورز سے تقریبا مکمل طور پر مضبوط ہوا ہے) اور پرائمری سرپلس میں بہتری اگرچہ مجموعی طور پر بڑھتے ہوئے بجٹ خسارے کی وجہ سے ہے تاہم سروے میں کہا گیا ہے کہ یہ خسارہ فیصد کے لحاظ سے پچھلے سال کی طرح ہی ہے۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ رواں سال معیشت کی کارکردگی توقعات سے کم رہی۔ یہ مشاہدہ ہمارے بجٹ میں کیے گئے زیادہ پرامید اندازوں کو مدنظر نہیں رکھتا ہے - کچھ اہداف عام لوگوں کے لئے ہیں (جس میں مئی کے لئے افراط زر کی کم دکھائی جانے والی شرح 11.3 فیصد اور غیر حقیقی 6.3 فیصد بے روزگاری شامل ہے) جبکہ دیگر اہداف کثیر الجہتی قرض دہندگان کے خدشات کو کم کرنے کیلئے ہیں خاص طور پر اس وقت جب اگلے طویل مدتی آئی ایم ایف پروگرام پر بات چیت جاری ہے، جس میں میکرو اکنامک اشاریوں پر اتفاق رائے شامل ہے (جن پر اتفاق رائے آئی ایم ایف ٹیم کی قبولیت کے ذریعہ ہوتا ہے)۔ جس پر آگے بڑھنے کے راستے کا انحصار ہوگا، اگلے آئی ایم ایف پروگرام کے لیے شرائط پڑھیں – ایک ایسا عنصر جو تین سالہ بجٹ اسٹریٹجی پیپر پیش کرنے میں غیر معمولی تاخیر کا سبب بنا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments