عالمی بینک نے منگل کو کہا ہے کہ امریکی معیشت کی توقع سے زیادہ مضبوط کارکردگی نے اسے 2024 کے عالمی نمو کے نقطہ نظر کو بہتر کرنے پر مجبور کیا ہے تاہم اس نے متنبہ کیا ہے کہ مجموعی شرح نمو 2026 تک وبائی امراض سے پہلے کی سطح سے بہت نیچے رہے گی۔

ورلڈ بینک نے اپنی تازہ ترین گلوبل اکنامک پروسپیکٹس رپورٹ میں کہا ہے کہ عالمی معیشت 2021 میں وبائی امراض کے بعد ہونے والی بڑی کمی کے بعد سے حقیقی جی ڈی پی کی نمو میں مسلسل تیسری کمی سے محفوظ رہے گی اور 2024 کی نمو 2.6 فیصد پر مستحکم رہے گی جو 2023 سے غیر تبدیل شدہ رہی۔

یہ عالمی بینک کی جنوری کی پیشن گوئی سے 0.2 فیصد زیادہ ہے جس کی ایک بڑی وجہ امریکہ میں مانگ مضبوط ہونا ہے۔

عالمی بینک کے ڈپٹی چیف اکانومسٹ ایہان کوس نے ایک انٹرویو میں رائٹرز کو بتایا کہ ایک لحاظ سے ہم آسان لینڈنگ کے لیے رن وے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بلند شرح سود سے امریکہ اور دیگر بڑی معشیتوں میں روز گار میں کمی اور دیگر کسی بڑی پریشانیوں کے بغیر مہنگائی کم ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ اچھی خبر ہے تاہم ہم سست لین دین میں پھنس سکتے ہیں جو ایک اچھی خبر نہیں ہے۔

ورلڈ بینک نے 2025 اور 2026 دونوں میں عالمی شرح نمو 2.7 فیصد کی پیش گوئی کی ہے، جو کرونا وبا سے پہلے کی دہائی میں 3.1 فیصد عالمی اوسط سے کم ہے۔ یہ پیش گوئی بھی کی جا رہی ہے کہ اگلے تین سالوں میں شرح سود 20-2019 کی اوسط سے دوگنی رہے گی، جس سے نمو رک جائے گی اور ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے ممالک پر قرض کا دباؤ بڑھے گا جنہوں نے ڈالر میں قرض لیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی 80 فیصد آبادی اور جی ڈی پی کی پیداوار کی نمائندگی کرنے والے ممالک 2026 تک وبائی مرض سے پہلے کی نسبت کمزور نمو دیکھیں گے۔

رپورٹ کے مطابق غریب ترین معیشتوں کے امکانات اور بھی تشویشناک ہیں۔ عالمی بینک کے چیف اکانومسٹ انڈرمیٹ گل نے کہا کہ انہیں قرض کی ادائیگیوں کی سطح، تجارتی امکانات کو محدود کرنے اور خطرناک موسمیاتی واقعات کا سامنا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ان ممالک کو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی امداد کی ضرورت ہوتی رہے گی۔

رپورٹ میں ایک متبادل ”دیر پا بلند“ شرح سود کا منظرنامہ بھی شامل ہے جس میں ترقی یافتہ معیشتوں میں مسلسل افراط زر سود کی شرح کو قرض دہندہ کی بنیادی پیشن گوئی سے تقریباً 40 بیس پوائنٹس اوپر رکھتا ہے، جس سے 2025 کی عالمی نمو کو 2.4 فیصد تک کم کر دیا گیا ہے۔

امریکی معیشت میں بہتری

امریکہ میں مضبوط طلب اور افراط زر کی بلند شرح نے فیڈرل ریزرو کی شرح میں کمی کی توقعات میں تاخیر کی ہے اور امریکی معیشت مسلسل دوسرے سال تنزلی کی پیشین گوئیوں کے برعکس رواں دواں ہیں۔ ورلڈ بینک اب 2024 کے لیے 2.5 فیصد امریکی ترقی کی پیش گوئی کر رہا ہے - جو 2023 کی رفتار سے مماثل ہے - اور جنوری کی 1.6 کی پیشن گوئی سے تیزی سے زیادہ ہے۔

ایہان کوس نے کہا کہ جنوری کی پیش گوئی کے بعد سے اضافی عالمی نمو میں امریکہ کی اپ گریڈ کا حصہ تقریبا 80 فیصد ہے۔

عالمی بینک نے چین کی 2024 کی شرح نمو کی پیشن گوئی کو جنوری میں 4.5 فیصد سے بڑھا کر 4.8 فیصد کر دیا۔ اس کی بڑی وجہ کافی حد تک تک بڑھتی ہوئی برآمدات ہے جو کم مقامی طلب کو پورا کرتی ہے۔ تاہم عالمی بینک نے پیش گوئی کی ہے کہ کمزور سرمایہ کاری اور صارفین کے اعتماد اور جائیداد کے شعبے میں جاری مندی کے سبب 2025 میں چین کی ترقی 4.1 فیصد تک گر جائے گی۔

اس طرح مضبوط مقامی مانگ کی بدولت بھارت کیلئے بھی شرح نمو میں اضافے کی پیشگوئی کی گئی ہے اور اب یہ جنوری میں 6.4 فیصد سے بڑھا کر 6.6 فیصد کردی گئی ہے۔

عالمی بینک نے جاپان کی 2024 کی شرح نمو کی پیشن گوئی کو 0.9 فیصد سے کم کر کے 0.7 فیصد کر دیا جس کی وجہ کھپت کی کمزور نمو اور برآمدات میں کمی اور سیاحت کی مانگ میں استحکام ہے۔ بینک نے یورو زون کیلئے اپنی 2024 کی پیشگوئی کو 0.7 فیصد پر برقرار رکھا ہے۔

تنازعات کے خطرات

عالمی بینک کا کہنا ہے کہ طویل عرصے تک شرح سود میں اضافے کے علاوہ عالمی منظرنامے کو لاحق سب سے بڑے منفی خطرات میں غزہ اور یوکرین میں مسلح تنازعات سے پیدا ہونے والے خطرات شامل ہیں۔

عالمی بینک نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں ایک وسیع جنگ جہاز رانی میں مزید رکاوٹوں کا سبب بن سکتی ہے اور تیل کی قیمتوں اور افراط زر کو بڑھا سکتی ہے۔ اسی طرح یوکرین میں روس کے حملے کے راستے کے بارے میں مزید غیر یقینی صورتحال تیل اور اناج کی منڈیوں میں بھی خلل ڈال سکتی ہے جبکہ پڑوسی ممالک میں سرمایہ کاری کو بھی روک سکتی ہے۔

جغرافیائی سیاسی اختلافات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی تجارتی پابندیاں بھی عالمی تجارتی حجم کی نمو کی بحالی میں رکاوٹ بن سکتی ہیں، جو کہ پچھلے سال بمشکل 0.1 فیصد پر محسوس کی جاسکتی تھی۔ ورلڈ بینک نے 2024 میں 2.5 فیصد نمو کی پیش گوئی کی ہے جو جنوری کی پیشن گوئی میں 2.3 فیصد تھی۔

تاہم ورلڈ بینک کا یہ بھی کہناہے کہ کہا کہ بہت سے ممالک میں بڑھتے ہوئے تحفظ تجارت اور صنعتی پالیسیاں عالمی سپلائی چینز کو مزید غیر مؤثر کرنے کا باعث بن سکتی ہیں اور ابھرتی ہوئی مارکیٹ اور ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ کاری کو کم کر سکتی ہیں۔

عالمی بینک نے یہ بھی کہا کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین میں سخت مندی ترقی کو متاثر کرے گی اور ایسا خاص طور پر اجناس کے برآمد کنندگان اور تجارت پر مبنی معیشتوں میں ہوگا۔

عالمی بینک کا کہنا ہے کہ اگر امیگریشن کی وجہ سے پیداواری صلاحیت اور لیبر سپلائی میں اضافہ مستقل ثابت ہوتا ہے تو امریکہ توقعات سے تجاوز کرنا جاری رکھ سکتا ہے اور کم افراط زر کے ساتھ عالمی ترقی کو فروغ دے سکتا ہے۔ بینک نے مزید کہا کہ عالمی سطح پر کم افراط زر، پیداواری فوائد، بہتر سپلائی چینز اور اشیاء کی قیمتوں میں نرمی کی مدد سے مرکزی بینکوں کو سود کی شرحوں میں اب توقع سے زیادہ تیزی سے کمی کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے جس سے کریڈٹ کی نمو میں اضافہ ہوتا ہے۔

Comments

200 حروف