یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ عالمی یوم ماحولیات جیسے دن اب بھی پاکستان میں اس قسم کی سنجیدگی کو فروغ نہیں دے پاتے کیونکہ ماحولیات اور آب و ہوا کا انحطاط ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔ پاکستانی حکومت یا اس کے عوام کاربن کے زیادہ اخراج کے ذمہ دار نہیں ہو سکتے جو موسمیاتی تبدیلی کا سبب بنتے ہیں، اگرچہ پاکستان ماحولیاتی آلودگی سے خود سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے تاہم ایسا نہیں ہو سکتا کہ ماحولیاتی آلودگی کا ذمہ دار ہمیں قراردیا جائے جس کے زیادہ شکار ہم خود ہی ہیں۔

ہم نے کئی دہائیوں سے زیادہ بارشیں، سیلاب اور غیر متوقع خشک سالی سے مکانات اور فصلوں کوتباہ ہوتے دیکھا ہے، پھر بھی ہمارے پاس ان سے نمٹنے کے لیے کوئی موثر پالیسی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ اقوام متحدہ نے ماحولیاتی آلودگی سے خشک سالی کے بارے میں خبردارکیا ہے، ہم نے حال ہی میں اس دریائے سندھ کے حجم میں کمی دیکھی ہے، اس دریا نے قدیم زمانے سے ان حصوں میں زندگی کو برقرار رکھا ہے، دریائے سندھ کی حفاظت سے متعلق اقدمات نہ ہونے سے یہ مزید سکڑ رہا ہے۔

ہم تقریباً دانستہ طور پر اپنے زرعی نظام کو بہتر کرنے میں ناکام رہے ہیں حالانکہ اس میں روایتی طور پر سب سے زیادہ لوگ کام کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ خاندان اس سے وابستہ ہیں۔ اب بھی تمام تر انحطاط کے باوجود ہم آبپاشی اور فصل کی قدیم تکنیک پر انحصار کرتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران جب سے ہم دنیا بھر میں پانی کی موجودگی یا فراوانی ممالک کی فہرست میں بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔ اس سے زرعی پیداوار کے نمونے متاثر ہوئے ہیں، پیداوار میں خاطر خواہ کمی آئی ہے اور پہلے سے متزلزل خزانے کو بیشتر اوقات غیر متوقع خلا کو پر کرنے کیلئے درآمدات پر زیادہ انحصار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

اسٹیک ہولڈرز اور دیکھنے والوں نے طویل عرصے سے جدید تکنیکوں اور طریقوں جیسے ڈرپ ایریگیشن، مٹی کے تحفظ، بہتر بیج وغیرہ کے استعمال کی طرف منصوبہ بندی کے ساتھ ایک مناسب منصوبہ بند منتقلی کی وکالت کی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اس طرح کے اقدامات کبھی ختم نہیں ہوئے۔ اس لیے کہ کسی بھی حکومت نے زرعی قوت کو ان کی اشد ضرورت کے بارے میں مناسب طریقے سے آگاہی دینے کی زحمت نہیں اٹھائی۔ ہم نے بھی افسوسناک طور پر جنگلات کی کٹائی کی مجرمانہ سطح کے بارے میں کچھ نہیں کیا جس سے یہ ملک کئی سالوں سے گزر رہا ہے۔ یہاں تک کہ اب ہمارے پاس پانچ فیصد سے بھی کم جنگلات رہ گئے ہیں۔

اس حوالے سے پی ٹی آئی (پاکستان تحریک انصاف) کی حکومت واحد انتظامیہ تھی جس نے جنگلات اور درختوں کو مسئلہ بناتے ہوئے اسے اہمیت دی اور اپنی مشہور/ بدنام بلین ٹری سونامی مہم شروع کی، اگرچہ بڑے پیمانے پر بیداری پیدا کرنے کیلئے اس مہم کی تعریف ہونی چاہئے۔ تاہم اگر تحریک انصاف کے بیانات کو دیکھاجائے تو یہاں یہ کہنا چاہیئے کہ اس نے کام اس طرح نہیں کیا۔تحریک انصاف کے حکومت کے خاتمے کے بعد یہ تعجب کی بات نہیں کہ درخت لگانے اور ماحولیات کے تحفظ کی باتیں بھی خاموش ہو گئیں۔

سب سے بڑا مسئلہ اس سرزمین کے حکمرانوں کا ہے۔ وہ طوی المدتی مسائل کے حل کیلئے کبھی بھی اپنی چھوٹی چھوٹی سیاسی سازشوں اور لڑائیوں سے آگے دیکھ ہی نہیں سکتے اور نہ ہی اس پر غور و فکر کرسکے ہیں۔ اس وقت بھی بات یہ ہے کہ کون سا اتحادی حکمران جماعت کیلئے زیادہ در سر بنے گا یا شریف گھرانہ اندرونی طور پر کتنا منقسم ہے یا اپوزیشن کے ارکان پر کون سے نئے کیسز کا طمانچہ رسید ہوگا۔ یہ چکر ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتا ہے، اس سے قطع نظر کہ اقتدار یا حزب اختلاف میں کسی بھی وقت کوئی بھی جماعت ہو۔

جب کہ ہم اس سرکس میں مصروف ہیں، دنیا 21 ویں صدی کے کچھ سنگین مسائل جیسے آب و ہوا اور ماحولیات پر قابو پانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس وقت ہم طوفان میں گھر چکے ہیں لیکن اس سے بچنے کیلئے ہمارے پاس اب تک کوئی ایکشن پلان نہیں ہے۔

Comments

200 حروف