پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں جمعے کو ایک ڈرامائی کاروباری دن دیکھنے میں آیا کیوں کہ بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس ابتدائی لمحات میں 2 ہزار پوائنٹس سے زیادہ گرگیا ، بعد ازاں بحالی کے باوجود اس کا اختتام منفی زون میں ہوا۔

کے ایس ای 100 انڈیکس نے کاروبار کا آغاز چند ماہ میں اپنی سب سے بڑی گراوٹ کے ساتھ کیا اور بینچ مارک انڈیکس 2 ہزار پوائنٹس کی کمی سے 72 ہزار کی سطح سے بھی نیچے چلا گیا کیوں کہ سرمایہ کاروں نے آئندہ بجٹ میں کیپٹل مارکیٹوں پر زیادہ ٹیکس عائد کیے جانے کی افواہوں پر شیئر فروخت کرنا شروع کردیے۔

انڈیکس رواں کاروباری ہفتے میں پہلے ہی دباؤ میں تھا اور اس کی سطح میں روزانہ ہی کمی ہورہی تھی تاہم جمعے کو فروخت کا شدید دباؤ ایک غلط نکتہ نظر تھا جو بجٹ میں زیادہ ٹیکسوں اور نمو مخالف تجویز پر مبنی افواہوں سے شروع ہوا تھا۔ بجٹ کا اعلان 12 جون کو ہونے والا ہے۔

73,000 پوائنٹس پر انڈیکس کے آنے سے مارکیٹ میں کافی حدتک بحالی ہوئی تاہم اسکے باوجود انڈیکس منفی زون میں بند ہوا۔

کاروبار کے اختتام پر بینچ مارک انڈیکس 108.91 پوائنٹس یا 0.15 فیصد کمی کے ساتھ 73,754.02 پوائنٹس پر بند ہوا۔

ماہرین نے کہا کہ آئندہ بجٹ 2024-2025 میں تجاویز کے حوالے سے خدشات نے شیئر فروخت کرنے کے رحجان میں اضافہ کیا۔

بروکریج ہاؤس عارف حبیب لمیٹڈ کی سربراہ ریسرچ ثنا توفیق نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں کیپٹل گینز ٹیکس (سی جی ٹی) اور ڈیویڈنڈ ٹیکس میں مجوزہ اضافہ اس رجحان کو آگے بڑھا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی لگانے یا پی ڈی ایل بڑھانے کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔

تاہم تجزیہ کار کا خیال تھا کہ آئندہ مانیٹری پالیسی کمیٹی میں شرح سود میں متوقع کمی سے قسمت بدل جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ شرح سود میں 200 بیسز پوائنٹ کم کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر شرح سود میں تبدیلی شروع ہوگئی ہے، کینیڈا اور یورپین سینٹرل بینک نے شرح کم کردی ہے جس سے اسٹیٹ بینک کے فیصلے کو حمایت ملے گی۔

توقعات سے قطع نظر جمعہ کو تمام اہم شعبوں میں فروخت کا دباؤ دیکھا گیا۔

ایک اور بروکریج ہاؤس ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے اپنی پوسٹ مارکیٹ رپورٹ میں کہا کہ ایکسچینج میں اتار چڑھاؤ کا سیشن دیکھا گیا جہاں انڈیکس 2,081 پوائنٹس کی انٹرا ڈے کی کم ترین سطح پر چلا گیا تھا اور یہ سب کچھ اس افواہ کے باعث ہوا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کیپٹل گینز اور ڈیوڈینڈ ٹیکس ریٹ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے تاکہ اسے بڑھا کر معیاری ذاتی یا کارپوریٹ انکم ٹیکس تک پہنچایا جاسکے، جبکہ اسی اثنا پرسنل انکم ٹیکس سلیب کو بڑھا کر پینتالیس فیصد تک بڑھایا جارہا ہے۔

تاہم جیسے جیسے دن آگے بڑھتا گیا مثبت رحجان نے غلبہ حاصل کرنا شروع کیا کیونکہ سرمایہ کار پیر کو مانیٹری پالیسی میٹنگ کو مد نظر رکھتے ہوئے حصص جمع کرنے کے لیے آئے جہاں مارکیٹ کو توقع ہے کہ پالیسی ریٹ میں 100-200 بیسس پوائنٹس کی کمی ہوگی اور سرمایہ کاروں کو یہ احساس ہوا کہ کیپٹل مارکیٹ پر ٹیکس میں اضافے کی اطلاعات افوا ہیں۔

ٹاپ لائن کے مطابق، ایم ای بی ایل، پی پی ایل، ایچ بی ایل، ایم سی بی، او جی ڈی سی اور یو بی ایل نے انڈیکس پر دباو بڑھایا اور یہ کمپنیاں 302 پوائنٹس کی کمی کا سبب بنیں۔

ہفتہ وار بنیادوں پر انڈیکس میں 2.8 فیصد کمی ہوئی۔

بروکریج ہاؤس نے کہا کہ اس کمی کی وجہ مالی سال 25 کے آئندہ بجٹ میں حکومت کی جانب سے متوقع کفایت شعاری اور اضافی ٹیکس کے اقدامات کے حوالے سے سرمایہ کاروں کی تشویش کو قرار دیا جا سکتا ہے۔

دریں اثنا انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 0.07 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق کاروبار کے اختتام پر قدر میں پیسے کے اضافے کے بعد روپیہ 278 روپے 20 پیسے پر بند ہوا۔

آل شیئر انڈیکس کا حجم ایک سیشن پہلے 352.74 ملین سے بڑھ کر 559.55 ملین ہو گیا۔

حصص کی مالیت گزشتہ سیشن میں 12.31 ارب روپے سے بڑھ کر 20.21 ارب روپے تک پہنچ گئی۔

پرویز احمد کمپنی 78.93 ملین شیئرز کے ساتھ والیم لیڈر رہی۔ اس کے بعد 34.4 ملین شیئرز کے ساتھ فوجی سیمنٹ دوسرے، اور ورلڈ کال ٹیلی کام 28.27 ملین شیئرز کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔

جمعہ کو 441 کمپنیوں کے حصص کا کاروبار ہوا جن میں سے 180 کمپنیوں کے حصص کے بھاؤ میں اضافہ، 200 میں کمی جبکہ 61 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔

Comments

200 حروف