اسرائیلی وزیر اعظم بنجیمن نیتن یاہو نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ حماس کی مکمل تباہی تک غزہ میں مستقل جنگ بندی نہیں ہوسکی۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے جنگ بندی کی تجویز کے اہم حصے پر شکوک و شبہات ظاہرے کیے ہیں جس پر امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ یہ اسرائیل نے خود ہی بنایا تھا۔

بائیڈن نے جمعہ کو کہا کہ اسرائیل نے ایک معاہدے کی تجویز پیش کی ہے جس میں ابتدائی چھ ہفتے کی جنگ بندی شامل ہے جس میں اسرائیلی فوج کے جزوی انخلاء اور کچھ یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے جبکہ دونوں فریقین نے ”دشمنی کے مستقل خاتمے“ پر بات چیت کی۔

تاہم ہفتے کے روز نیتن یاہو کے بیان میں کہا گیا کہ کوئی بھی خیال کہ اسرائیل حماس اور اس کی حکمرانی کی صلاحیتیوں کے خاتمے سے پہلے مستقل جنگ بندی پر راضی ہو جائے گا قابل عمل نہیں ہے۔

کئی مہینوں سے امن مذاکرات کا سلسلہ تھم گیا ہے، اسرائیل تمام یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کی تباہی کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ حماس مستقل جنگ بندی، اسرائیلی افواج کے انخلاء اور بہت سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔

حماس نے جمعے کے روز کہا تھا کہ وہ مثبت اور تعمیری انداز میں بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن گروپ کے ایک سینئر عہدیدار محمود مردوی نے قطری ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسے ابھی تک اس تجویز کی تفصیلات موصول نہیں ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قابض فوج کے انخلاء اور جنگ بندی کے مطالبے سے قبل کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا۔ حماس اسرائیل کی تباہی کے لیے پرعزم ہے۔

غزہ جنگ 7 اکتوبر کو اس وقت شروع ہوئی جب فلسطینی گروپ کے جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل میں داخل ہوکر حملہ کیا جس میں اسرائیلی حکومت کے مطابق 1,200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے اور 250 سے زائد اسرائیلیوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔

غزہ میں اسرائیل کی زمینی اور فضائی بمباری نے شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے اور وہاں جنگ کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر غذائی قلت پیدا ہوئی ہے۔ فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کے مطابق اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 36,000 سے زیادہ افراد شہید ہوئے ہیں جن میں بیشتر عام شہری ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے گزشتہ ماہ عالمی رہنماؤں کے مطالبات مسترد کرتے ہوئے فوج کو رفح میں داخلے کاحکم دیا تھا اور فوج کے داخلے کے بعد وہاں پناہ لینے والے 10 لاکھ سے زائد افراد ایک بار پھر بے گھر ہوگئے تھے۔

اسرائیل کا کہنا تھا کہ مصر کے ساتھ سرحد پر واقع رفح غزہ میں حماس کا آخری اہم گڑھ ہے اور اس گروپ کو تباہ کرنے کی اس کی مہم اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک وہ شہر میں داخل نہ ہو جائے۔

بدھ کے روز نیتن یاہو کے قومی سلامتی کے مشیر زاچی ہنیگبی نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ غزہ میں جنگ کم از کم 2024 کے اختتام تک جاری رہے گی۔

اپوزیشن

امریکہ میں ، اسرائیل کے صف اول کے اتحادی، غزہ میں شہریوں کو بے پناہ تکلیفوں اور مشکلات کے سبب بائیڈن پر جنگ رکوانے کے لیے دباؤ بڑھا ہے۔ صدر بائیڈن نومبر کے انتخابات میں دوسری مدت کیلئے منتخب ہوکر صدارت سنبھالنے کی توقع کررہےہیں۔

بائیڈن نے جمعہ کے روز اسرائیل کی قیادت پر زور دیا کہ وہ ملک میں ان لوگوں کے دباؤ کے خلاف مزاحمت کریں جو جنگ کو غیر معینہ مدت تک جاری رکھنا چاہتے ہیں، یہ جنگ ختم ہونے کا وقت آگیا ہے۔

7 اکتوبر کے حملے پر اسرائیل میں عوامی اشتعال سے نیتن یاہو حکومت کو غزہ جنگ کیلئے بڑی حمایت ملی ہے حالانکہ حکومتی اتحاد پر باقی یرغمالیوں کو واپس لانے کے لیے دباؤ بھی ہے۔

حزب اختلاف کے رہنما یائر لائپڈ نے نیتن یاہو پر زور دیا کہ وہ یرغمالیوں اور جنگ بندی کے معاہدے پر راضی ہو جائیں، ان کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی اس کی حمایت کرے گی یہاں تک کہ اگر حکومتی اتحاد میں دائیں بازو کے دھڑے بغاوت کر دیں، یعنی ممکنہ طور پر ایک ڈیل پارلیمنٹ میں منظور ہو جائے گی۔

یائر لائپڈ نے ہفتے کو ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ اسرائیل کی حکومت صدر بائیڈن کی نتیجہ خیز تقریر کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ میز پر ایک معاہدہ ہے اور اسے ہونا چاہئے۔

دشمنی کے خاتمے کو بیان کرنے کے لیے زبان کی تلاش بات چیت آگے بڑھانے سے روکنے کا سبب بن رہی ہے۔ ثالثوں نے اس سے قبل دونوں فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایک سمجھوتے کے طور پر ایک مستقل مدت کے لیے راضی ہوں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس گروپ کے خلاف مستقل جنگ بندی ممکن نہیں ہے جو اسے تباہ کرنا چاہتا ہے اور اس نے 7 اکتوبر کو حملہ کیا۔

حماس کا کہنا ہے کہ وہ کسی ایسے معاہدے پر اتفاق نہیں کرے گا جس سے غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم جاری رہے گی۔

Comments

200 حروف